خودکشی کی پانچ بنیادی وجوہات ، علاج اور اسلامی نظریہ
مسلمان حالات سے پریشان ہوکر خودکشی کرنے کے لیے نہیں آیا ہے بلکہ مصائب وآلا م کے حالات میں صبروضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکناف عالم کو جینے کا شعور اور زندگی گزارنے کا طریقہ سکھانے اور بتانے کے لیے آیا ہے۔
از:عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)،مالیگاﺅں
جب
کوئی شخص اپنے ہاتھوںکسی بھی ذریعے سے اپنی زندگی ختم کرتا ہے تو اس کا یہ عمل خود
کشی کہلاتاہے۔اسلام نے خودکشی کرنے کو حرام قرار دیاہے اور حرام موت مرنے والے کے لیے
دائمی جہنم کی سزا سنائی ہے۔مذہب اسلام دنیا کا وہ پہلا مذہب ہے جس نے خودکشی کرنے
والوں کو مرنے کے بعد بھی عذاب کا سزاوار بتایاہے۔اسلام نے اپنی تعلیمات کے ذریعے خودکشی
کرنے کے تمام اسباب ووجوہات کو خارج ازامکان قرار دیا ہے اس لیے کہ اسلام انسانیت کا
درس دیتا ہے۔شہر مالیگاﺅں میں گذشتہ کچھ دنوں سے خودکشی کے کئی واقعات رونما
ہوئے ہیں۔ایسے نازک وقت میں ضروری ہوجاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں
کی ہمت ، حوصلہ اور اعتماد کو بحال کیا جائے۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم ہے کہ جس
کسی نے دھار دار ہتھیار سے خود کو قتل کیا وہ دوزخ میں جاکر اپنے پیٹ میں وہ ہتھیار
ہمیشہ بھونکتا رہے گا۔جس کسی نے زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کیاوہ ہمیشہ دوزخ کی آگ
میں زہر پیتا رہے گااور جس نے پہاڑ سے کود کر اپنے آپ کو ہلاک کیاوہ ہمیشہ دوزخ کی
آگ میں اوپر سے نیچے گرتا رہے گا جس سے اسے رہائی نہیں ملے گی۔غرضیکہ جس چیز سے خود
کشی کی جائے گی مرنے والے کو حشر کے میدان میں اسی سے عذاب دیاجائے گا۔
خود
کشی کرنے کی وجوہات میں سے چند اسباب یہ ہیں:
(1) حالات
ناسازگار ہونے پر اکثر لوگ غصے کی حالت میں خودکشی کرتے ہے جب کہ پیغمبر اسلام صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سب سے طاقتور انسان وہ ہے جو اپنے غصے کو پی جائے ۔ حضوراکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ دور کرنے کی ترکیبیں بھی بیان فرمائی ہیں، اہل علم حضرات
کو چاہیے کہ وہ غصے کے تدارک کے لیے اسلامی تراکیب کو عام کریں۔
(2) کچھ
لوگ مرض کی شدت یا بیماری کی بے حد تکلیف پر خودکشی کرتے ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ
اللہ تعالیٰ! مومن کو تھکان پر بھی اجر عطا فرماتا ہے۔مومن کی تکلیف اس کے گناہوں کو
دور کرتی ہے۔روایتوں میں آیا ہے کہ ایک مجاہد بڑی بےباکی اور بہادری کے ساتھ لڑرہاتھا
مگر اس نے زخموں کی تاب نہ لاکر خودکشی کرلی ،حدیث پا ک میں اس مجاہد کو جہنمی قرار
دیا گیا ہے۔ تکلیف سے نجات حاصل کرنے کے لیے خودکشی کرنے والوں کو موت کے بعد بھی راحت
نہیں ہے،انھیں باربار اسی تکلیف میں مبتلا کیاجاتا رہے گا۔کیا آج کے مسلمان حضرت ایوب
علیہ السلام کے درد اور تکلیف کو بھول گئے ہیں؟حضرت ایوب علیہ السلام انتہائی کرب کے
عالم میں بھی اپنے رب کے صابر وشاکر رہے اور رب نے انھیں تمام نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔
(3) اکثر
نوجوان امتحانات میں فیل ہوجانے یا روزی روزگار نہ ملنے کے سبب خودکشی کرلیتے ہیں جب
کہ فرمایاگیا کہ بندوں کو چاہیے کہ صرف کوشش کریں ،رزق کا عطا کرنے والا خالق کائنات
ہے۔جب وہ رب چرند پرند اور کیڑے مکوڑوں کو رزق عطا کرتا ہے تو اشرف المخلوقات کو کیسے
محروم کرے گا؟جب بچہ ماں کے شکم میں ہوتا ہے اسی وقت اس کا رزق اس کے مقدر میں لکھ
دیا جاتا ہے۔البتہ یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ انہوں نے اپنی خواہشات کو طویل کرلیا ہےں
اور ان خواہشات کی تکمیل نہ ہونے کی صورت میں وہ ذہنی دباﺅ اور احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور خودکشی کرلیتے ہیں ۔
(4) سوسائٹی
میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ لوگوں کے مابین بڑھتے ہوئے ناجائز تعلقات بھی خود کشی
کا ایک اہم سبب ہے جس پر قدغن لگانا انتہائی ضروری ہے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مادیت
پرستی کے کھول سے باہر آئیں اور اسلامی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
فرمایا گیا کہ جب بچہ بالغ ہوجائے تو دین دار گھرانے میں اس کی شادی کرادی جائے ۔ آج
کے ماحول میں ضروری ہوجاتا ہے کہ شادی میں حائل تمام طبقاتیت یعنی رنگ ونسل،امیری وغریبی
اور رشتے داری وبرادری جیسی غیر اہم چیزوں کو نظر انداز کیا جائے۔
(5) اس
وقت جو پھانسی کے حادثات رونما ہو رہے ہیں اس کے متعلق بعض سوشل ورکرس نے بتایا کہ
لاک ڈاﺅن کی وجہ سے کئی لوگ کسمپرسی اور بھوک مری کا شکار ہیں۔ اس سلسلے میں دینی ،
ملی ، سماجی اور فلاحی تنظیموں کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور اس طرح کے
مصائب میں گرفتار لوگوں کی تسلی و تشفی کا سامان مہیا کریں۔
مسلمان حالات سے پریشان ہوکر خودکشی کرنے کے لیے
نہیں آیا ہے بلکہ مصائب وآلا م کے حالات میں صبروضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکناف عالم
کو جینے کا شعور اور زندگی گزارنے کا طریقہ سکھانے اور بتانے کے لیے آیا ہے۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment