ٹی وی ڈیبیٹ میں حصہ لینے پر دو ہزار سے بیس ہزار روپے مولویوں کو دیے جاتے ہیں۔
دی وائر نیوز ایجنسی کی مشہور اینکر عارفہ خانم شیروانی نے ٹی وی چینلز
پر آنے والے مولویوں کا پردہ فاش کیا
از:عطاءالرحمن نوری،مالیگاﺅں(ریسرچ اسکالر)
اسلام کے خلاف بیان بازیوں اور زہرافشانی
کی بات کی جائے تواس اَمرمیں کوئی بھی دودھ کادُھلانہیں ہے۔سیاسی لیڈران اپنی ریلیوں
میں اسلام مخالف بیانات دیتے ہیں اور ٹی وی چینلز کے اینکرز اپنے شوز میں اسلام مخالف
شوشے چھوڑتے ہیں ۔میڈیا پرآئے دن اسلام مخالف موضوعات پر ڈیبیٹ(بحث ومباحثہ) کرانامیڈیاٹیم
کے لیے ٹی آرپی بڑھانے کا بہترین ذریعہ بن چکاہے۔ان پروگرامات میں مختلف لوگوں (نام
نہاد ایکسپرٹ)کو بلایاجاتا ہے۔یا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اسلام مخالف ذہن
رکھنے والوں کو مدعو کیاجاتا ہے اور اسلامی تصور پیش کرنے کے لیے منجھے ہوئے عالم کو
بلانے کی بجائے ایسوں کو بلایاجاتا ہے جو کم علمی اور کج روی کا شکار ہوتے ہیں۔ڈیبیٹ
کے دوران ایسے افراد اغیار کے سوالات کا جواب نہیں دے پاتے ہیںاور ان کی لاجوابی اور
خاموشی اسلام کی بدنامی کا سبب بنتی ہے۔درحقیقت میڈیا کامنصوبہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ڈیبیٹ
میں اسلامی اسکالرز کے نام پر ایسے کمزوروں کو بُلایا جائے جن کو دورانِ گفتگو خاموش
کرایاجاسکے اور یہ نا سمجھ اورکمزور صفت لوگ سستی شہرت اور محض ٹی وی پر آنے کے شوق
میں مسلمانوں کی رُسوائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
دی وائر نیوز ایجنسی کی مشہور اینکر عارفہ
خانم شیروانی نے ایسے مولویوں کی پول کھول دی ہے۔ عارفہ خانم نے عام شہریوں سے سوال
پوچھا کہ کیا کبھی آپ نے سوچا کہ آخر کار یہ مولوی نماحضرات ٹی وی مباحثوں میں جاتے
کیوں ہیں ؟ کیا یہ مسلم سماج کے نمائندے ہیں؟ کیا یہ سرکاری درباری میڈیا کی مدد کر
رہے ہیں ؟ کیا مسلم سماج کے لوگوں کو یہ آواز نہیں اٹھانی چاہیے کہ یہ لوگ ہمارے نمائندے
نہیں ہیں؟ کیا انھیں دین ، سیاست ، حالات حاضرہ اور میڈیائی پروپیگنڈوں کی سمجھ ہے ؟
عارفہ
خانم شیروانی نے کہاکہ میں بیسیوں سالوں سے مختلف چینلز میں کام کر چکی ہوں اس لیے
اندرونی باتوں کو بھی جانتی ہوں۔ عارفہ نے اپنے ایپی سوڈ میں بہت سے سنگین الزامات
عائد کیے ہیں ، عارفہ کی ویڈیو سے چند تلخ مگر مبنی بر حقیقت جملوں کو ذیل میں پیش
کیا جا رہا ہے :
(1) کچھ ٹی وی چینلز اپنے اسٹوڈیو میں ٹوپی کا نظم
رکھتے ہیں، اگر کوئی مولوی ٹوپی پہن کر نہ آئے تو اسے اسٹوڈیو میں موجود ٹوپی پہنائی
جاتی ہے ۔اس لیے کہ جیسے ہی ٹوپی پہنی جاتی ہے ایک خاص قسم کی شبیہ یا تصویر ابھر کر
سامنے آتی ہے ۔ ٹی وی چینلزسماج کو بانٹتے ہیں کسی کو ٹوپی پہنا کر اور کسی کو سندور
لگا کر۔
(2) عارفہ خانم شیروانی نے بڑی ذمہ داری سے کہا کہ
ایک ٹی وی ڈیبیٹ / مباحثے میں حصہ لینے پر دو ہزار سے بیس ہزار روپے مولویوں کو دیے
جاتے ہیں۔ اب جو جتنا زیادہ شعلہ بیان ، جذباتی اور ٹی آر پی بڑھانے والا ٹی وی بیسڈ
مولانا ہوگا اس کا ریٹ اتناہی زیادہ ہوگا۔ اگر ایک ہفتے میں ایک چینل والے نے بھی بلایا
تو ہندوستان میں درجنوں چینلز ہیں، ایک ہفتے میں لاکھوں روپے کمائے جاسکتے ہیں۔ پیسوں
کے ساتھ انھیںشہرت بھی ملتی ہے۔
(3) ان مولویوں کی بیان بازیوں سے ایک خاص مذہب
(اسلام)کے متعلق ایک خاص قسم کی منفی شبیہ تیار ہوتی ہے ۔ ٹی وی پر آنے والے مولوی
مُلّا ہی ان ٹی وی مباحثوں کو اہمیت دیتے ہیںاور ایک خاص مذہب (اسلام) کو بدنام کرنے
کا سبب بھی بنتے ہیں۔
(4) ان مولویوں کے ذریعے ٹی وی چینلز ایک قسم کا
سوانگ / ڈھونگ رچنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ مباحثوں کے پینل میں ایک طرف مسلم خواتین
کو بٹھا یا جاتا ہے جنھیں آزاد خیال اور اسلام کی سچی پیروکار کے طور پر پیش کیا جاتا
ہے جب کہ ان کے برعکس ایسے ڈھیٹ مولویوں کو بٹھایا جاتا ہے جنھیں منفی سوچ ، کوتاہ
طبیعت کا حامل اور منافرت پھیلانے والا بتایا جاتا ہے ۔جو ہر بات میں عورتوں کی مخالفت
کرتے ہیں ، جس کے ذریعے ٹی وی اینکرز یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام میں عورت
کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
(5) ٹی وی ڈیبیٹ یا مباحثوں میں ایک خاص قسم کا بناوٹی
جھگڑا دکھایا جاتا ہے،ان جھگڑوں میں مولویوں کو روڈی وادی اور پچھڑی سوچ رکھنے والا
پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے مباحثوں سے ٹی وی چینلز کی ٹی آر پی بڑھتی ہے ، سیاسی لیڈران
نفرت انگیز بیانات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نام نہاد اسکالرز اپنا ضمیر بیچ کر پیسہ
کماتے ہیں۔
(6) عارفہ خانم شیروانی نے کہا کہ کچھ لوگوں کا کہنا
ہے کہ ایسے مولویوں کے خلاف مہم چلائی جانی چاہیے اور ان کا اس وقت تک سماجی بائیکاٹ
کرنا چاہیے جب تک یہ مولوی ٹی وی مباحثوں میں جانا بند نہیں کر دیتے۔اس لیے کہ نام
نہاد مولوی اپنے نجی فائدے کے لیے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے
ایک خاص قسم کے (مسلم)سماج کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔
عارفہ
خانم شیروانی نے دی وائر پر اس تعلق سے کئی اسٹوری کَوَر کی ہے۔ عارفہ خانم کا کہنا
ہے کہ ان نام نہاد مولاناﺅں کو ہزاروںروپے دے کر اسٹوڈیومیں
بلایاجاتا ہے تا کہ وہ بدنامی مول لے ۔چند سکوں کی خاطر یہ لوگ گالی کھانے کے لیے تیار
ہوجاتے ہیں اور کچھ روپے مزیدبڑھادیے جائیں تو یہ لوگ کیمرے کے سامنے مار کھانے کے
لیے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔گذشتہ چند سالوں میں اس طرح کی کئی واردات ٹی وی اسکرین پر
ہو چکی ہیں۔کبھی مولانا بول کر لائیوشو سے نکال دیا جاتا ہے،کبھی گالی دی جاتی ہے،کبھی
کھلے عام دہشت گرد کہا جاتا ہے،کبھی عورت کے ذریعے طمانچہ رسید کروا دیا جاتا ہے ۔
اب ڈرامے میں ٹوئسٹ سین بھی داخل کر دیا گیا ہے یعنی عورت ایک تھپڑ مارتی ہے تو کرتا
پہنا ہوا شخص عورت کو تین تھپڑ رسید کردیتا ہے،پھر جیل جانا پڑتا ہے اور شروع ہوجاتی
ہے ایک نئی بحث کہ اسلام میں عورتوں کی قدر نہیں بتائی گئی ہے ،ایک مسلمان نے سرے عام
ادھیڑ عمر خاتون کو رُسوا کیااور بات آگے چل کر پھر برقعہ،آزادی ،ٹریپل طلاق،حلالہ
اور چار شادیوں پر آجاتی ہے ۔
عارفہ خانم شیروانی جیسی بیباک و نڈر صحافی
خاتون کے ذریعے بیان کردہ سنگین بیان کی معلوم نہیں کتنی سچائی ہے مگر بے ایمانی کے
اس دور میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔آج روپے اور سستی شہرت کی لالچ میں کسی کو کوئی فرق
نہیں پڑتا ہے کہ اس کی وجہ سے پوری قوم کی عزت کا جنازہ نکل رہاہے یا مذہب بدنام ہو
رہاہے۔اربابِ علم کو چاہیے کہ اس امرمیں سرجوڑ کر بیٹھیں اور متفقہ طور پر فیصلہ صادر
کریں کہ اس طرح کے ٹی وی پروگرامس میں کوئی بھی شریک نہ ہوبصورت دیگر ان کا سماجی بائیکاٹ
کیا جائے ۔ ہاں اگر کوئی اس پایہ کا عالم ہو کہ نہ صرف مختلف زبانوں بلکہ متعدد علوم
وفنون کا بھی ماہر ہو جو ہر اعتراض کا دندان شکن جواب دے سکے تو بات جدا ہے۔
پروپیگنڈہ اور ٹی آر پی سے دور اصل معاملات سے آگاہی کے لیے یوٹیوب پر نوری اکیڈمی کو سبسکرائب اور نوری اکیڈمی ویب سائٹ کو فالو کریں۔ اللہ پاک سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین
No comments:
Post a Comment