کورونا کی آڑ میں سندوں
کی بھرمار
ایسے ایسے ادارے لوگوں کو سند دے رہے ہیں جو خود کہیں سے سند یافتہ نہیں ہیں
وسیم رضا خان (معاون مدیر، ہندی روزنامہ نو بھارت)
جب سے کورونا نام کی وبا نے دنیا میں سر اٹھایا ہے تب
سے ہزاروں لوگ ہندوستان میں بھی اس مہاماری کی چپیٹ میں آگئے ہیں (سرکاری خیال کے
مطابق). کئی لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا. کورونا کے ساتھ اس تگ و دو میں
سوشل میڈیا کا کردار بھی کام کرتا رہا جو آج تک کر رہا ہے. سوشل میڈیا ایسے
معاملات میں جو کردار نبھاتا ہے، دنیا کے بڑے سے بڑے ذرائع ابلاغ اس کے سامنے ہیچ
نظر آتے ہیں. کورونا کے بحران میں بھی سوشل میڈیا نے تمام ذرائع کو پیچھے چھوڑ دیا
ہے. اس کا استعمال کرکے ہر دن نئے نئے ہتھکنڈوں کی مدد سے لوگوں کو کورونا سے یا
تو ڈرا رہے یا اس کی حیثیت اتنی گرا دی کہ لوگ قانون کو بالائے طاق رکھ کر نڈر ہو
کر گھروں سے نکل آئے. جہاں ایک جانب سوشل میڈیا نے لوگوں میں بیماری کے تئیں
بیداری پیدا کر کے کنٹرول بنائے رکھا تو وہیں دوسری جانب ہزاروں افواہیں بھی
پھیلائیں. پچھلے کچھ ماہ سے اسی سوشل میڈیا کے ذریعے سے لوگوں کو بہادر ثابت کرنے
کیلئے کچھ اداروں نے سندیں بانٹنی شروع کر دی ہیں. خوبصورت ڈیزائین میں تیار کی
گئیں سیکڑوں سندوں کی کاپیاں روز وہاٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر اور دیگر سوشل سائٹوں
پر دکھائی دے رہی ہیں. "فلاں ادارے نے فلاں کو کورونا یودھا قرار دیا."
ایسے ایسے ادارے لوگوں کو سند دے رہے ہیں جو خود کہیں سے سند یافتہ نہیں ہیں. روز
انٹرنیٹ شروع کرتے ہی کئی لوگ اپنی سند لے کر کھڑے دکھائی دیتے ہیں. "کورونا
یودھا" پتہ نہیں یہ لفظ کس نے گھڑ دیا اور گھڑا بھی تو اس بیچارے کیلئے گھڑا
ہے جو کورونا سے جھوجھ کر اپنی صحت قربان کر رہا ہے. یہ لفظ ان لوگوں کیلئے نہیں
ہے جو پی پی ای کٹ پہن کر اور ماسک لگا کر کورونا سے ڈرے سہمے ہیں. کھلاڑی اسے کہا
جاتا ہے جو میدان میں اتر کر کھیلتا ہے. کھلاڑیوں کو پانی پلانے والے کو کھلاڑی
نہیں کہا جا سکتا. اسی طرح کورونا یودھا بھی وہ بیچارہ ہے جو اس سے لڑ رہا ہے یا
لڑتے لڑتے جان دے دی ہے. ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر اسٹاف اپنے کام کی بھاری تنخواہ
لیتے ہیں، انہیں کورونا یودھا کہنا مجھے مناسب نہیں لگتا. سند یافتہ یودھاؤں
میں میڈیا کے کچھ افراد بھی دکھائی دیئے جو خود اپنے لئے سرکار سے حفاظتی اقدام کی
مانگ کر رہے ہیں. کچھ ایم ایل ایز اور ایم پیز کو بھی لوگوں نے کورونا یودھا بنا
کر سندیں دے ڈالیں. ایک ایسا ٹی وی چینل جس کے پاس خود کی منظوری کی بھی سند نہیں
وہ لوگوں کو سند کس بنیاد پر دے سکتا ہے. افسوس ان اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں پر بھی
ہوتا ہے جو اس قسم کی سندیں لے کر لوگوں میں دکھاوا کر رہے ہیں. راقم الحروف کے
ایک دوست نے ایسی ہی ایک سند وہاٹس پر ارسال کی جو اسے کسی اخبار کی جانب سے دی
گئی تھی. بتاتا چلوں کہ وہ اخبار خود سرکار کی بلاک لسٹ میں شامل ہے. خیر... لوگ
اسی میں خوش ہیں تو اللہ خیر کرے...
پروپیگنڈہ اور ٹی آر پی سے دور اصل معاملات سے آگاہی کے لیے یوٹیوب پر نوری اکیڈمی کو سبسکرائب اور نوری اکیڈمی ویب سائٹ کو فالو کریں۔ اللہ پاک سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین
پروپیگنڈہ اور ٹی آر پی سے دور اصل معاملات سے آگاہی کے لیے یوٹیوب پر نوری اکیڈمی کو سبسکرائب اور نوری اکیڈمی ویب سائٹ کو فالو کریں۔ اللہ پاک سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین
No comments:
Post a Comment