بچّوں کو سدھاریے، ملک اپنے آپ سدھر جائے گا مگر میرا سوال یہ ہے کہ بچوں کو سدھارا کیسے جائے ؟

Ghazala Fatma
Research Scholar
Jamia Millia Islamia
New Delhi 110025
بچوں کے تعلیم کی ابتداء درسی کتب سے ہوتی ہے اس لیے نصابی ادب تخلیق کرتے وقت بچوں کی ذہنی سطح کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔
چلڈرن آف دی ورلڈ(1873)کے مصنف جرمن ادیب نوبل انعام یافتہ پال ہنس نے لکھا ہے:
”مجھے وہ کتابیں پسند ہیں جو ادب و تہذیب کی بنیادی قدروں کی وفادار ہوتی ہیں بطور خاص وہ کتابیں پسند ہیں جو بچوں کے وجدان اور آگہی کے لیے حسین راستہ فراہم کرتی ہیں۔ سادگی بھرا ایک ایسا حسن جو فوری طور پر ان کی روح میں اتر کر انہیں جھنجھوڑ دے اور اس سچائی کی کسک سے بچوں کو آخری عمر تک آمادہ کار رکھے۔“
بچوں کے ادیب اور ماہرین کو ادب اطفال تخلیق کرتے وقت چند ضروری باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جو ادب لکھا جا رہا ہے کیا وہ بچوں میں ایثار قربانی ، اخلاق ومحبت، خلوص ، انسانیت، بے غرض خدمت اور قومیت کا جذبہ پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں، یا نہیں، کیا وہ ادب بچوں کو مشکلات کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا کر سکتا ہے؟ اگر ان تمام باتوں کا خیال رکھا جائے تو ایک اچھے ادب اطفال کی تخلیق ہو سکتی ہے۔ بچوں کا ادب ایسا ہونا چاہئے جو نصابی کتابوں کے برعکس دلچسپ طریقے سے بچوں کو علم حاصل کرنے میں معاون ہو اور انہیں کتب و رسائل پڑھنے کی طرف مائل کرے اور تفریح کا سامان بھی پیدا کرے۔ ایک قول ہے کہ
”بچّوں کو سدھاریے، ملک اپنے آپ سدھر جائے گا۔“
لیکن میرا سوال یہ ہے کہ بچوں کو سدھارا کیسے جائے ؟ اس سوال کا یہ جواب ہو سکتا ہے کہ اس کے لیے بچوں کو اخلاقی، معلوماتی اور تفریحی ادب فراہم کیا جائے جو بچوں میں اوصاف حمیدہ پیدا کرنے میں تلقین کرے۔
ڈاکٹر سید فضل اللہ کا قول ہے:
ٍ بچے...... !
وہ تو جنت کا پھول ہوتے ہیں۔ان کو دیکھنے سے آنکھوں کو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ ان کی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے۔ ان کو چھونے سے فرحت و انبساط حاصل ہوتا ہے۔ وہ تو ہمارا مستقبل ہیں قوم کاسرمایا ہے۔ اسی لیے تو بچے کو آدمی کا باپ کہا جاتا ہے۔
Words worth کا قول ہے :
بچے ......!!
وہ تو من کے سچے ہوتے ہیں گھر کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں۔ ابھی روئے ابھی کھلکھلا اٹھے۔ سوتے میں جاگتے ہیں جاگتے میں سوتے ہیں۔ ہر دم دمِ جستجو رہتے ہیں۔ ہزار بار گرتے ہیں۔ گرکر اٹھتے ہیں۔ ہر چیز کو چھونے اور چکھنے کی خواہش لیے ادھر ادھر گھومتے رہتے ہیں۔ حرکت میں برکت کے مصداق وہ ہمیشہ حرکت میں رہتے ہیں اور اپنی جسمانی نشو و نما بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں۔
بچے....... !!!
جو بڑوں کی نقل کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ ان کی جسمانی نشو و نما اور جذباتی توازن عمر کے ساتھ ساتھ مستحکم ہوتے رہتے ہیں لیکن ذہنی تربیت اور اس کی نشوونما یہ تو ایک ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے جیسے کہ انگریزی میں ایک کہاوت ہے
یعنی ایک ماں سو اسکولوں کے برابر ہوتی ہے۔ بچہ سب سے زیادہ ماں کے قریب ہوتا ہے اس کی تربیت وہیں سے شروع ہو جاتی ہے۔ بچوں کے ادب کی ابتدا ماں کی لوریوں سے ہوتی ہے۔ اس طرح لاشعوری طور پر بچہ ماں کی گود سے ادب اطفال سے مانوس ہو جاتا ہے۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں ماں کی گود بچے کا پہلا مکتب ہوتی ہے انسان کو مہد سے لحد تک یعنی گود سے گور تک تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
ایک بار میں نے پڑھا تھا کہ ایک انگریز خاتون کسی ماہر تعلیم کے پاس گئیں اور پوچھا کہ میں اپنے بچے کی تربیت کس طرح کروں ؟ ماہر تعلیم نے سوال کیا آپ کا بچہ کب پیدا ہونے والا ہے۔ خاتون نے جواب دیا کہ میرا بچہ دو سال کا ہو چکا ہے۔ خاتون کا جواب سنتے ہی ماہر تعلیم نے غصے اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا افسوس....! تم نے اپنے دو قیمتی سال برباد کر دیے اور اب میرے پاس آئی ہو۔
یہ کہانی صرف اس عورت کی ہی نہیں بلکہ ہمارے پورے معاشرے کی ہے۔ وہاں تو صرف دو سال ضائع ہوئے یہاں تو نہ جانے ایسے کتنے سال ضائع ہو جاتے ہیں اور ہمیں خبر تک نہیں ہوتی۔ یوں تو ہم اپنے بچوں کو غیر معمولی اہمیت اور عیش و آرام مہیا کراتے ہیں۔ ان کے کھانے پینے ،رہنے سہنے اور کھیلنے کودنے غرض کہ ہر طرح سے ان کی تفریح کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن جب بات ان کی تعلیم و تربیت کی آتی ہے تو ہم بہت دیر کر دیتے ہیں۔
..:: FOLLOW US ON ::..
![]() |
![]() |
![]() |
No comments:
Post a Comment