میرِعرب کوآئی ٹھنڈی ہواجہاں سے
ہندوستان جنت نشان کے فضائل کا تذکرہ جن کا جاننا تاریخ کے ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے
از:عطاءالرحمن نوری(ریسرچ اسکالر ) مالیگاﺅں
ہندوستان عہد قدیم سے مسلمانوں کامسکن رہا ہے۔صحابہ کرام ، تابعین اورتبع تابعین کے قافلے اسلام کے فروغ و استحکام کے لیے ہند کی سرزمین پر تشریف لاتے رہے۔ اسلام کے سب سے پہلے پیغمبر اور دنیا کے سب سے پہلے انسان اسی سرزمین پرجنت سے تشریف لائے۔ ساتھ ہی کائنات کی جان ،وجہِ تخلیقِ کائنات ، کارخانہ قدرت کے عظیم شاہکار مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور بھی پیشانی آدم کے ساتھ سب سے پہلے ہندوستان آیا۔ یہاں مراد موجودہ ہندوستان نہیں بلکہ وہ ہند ہے جس کی سرحدیں پاکستان، افغانستان، بھوٹان، نیپال، بنگلہ دیش، میانمار (برما)، سری لنکا اور مالد یپ تک وسیع تھیں۔
مولانا عبدالرزاق بھترالوی تحریر فرماتے ہیں:
”حضرت آدم علیہ السلام سراندیپ (سری لنکا) میں اورحضرت حوا ”جدّہ“ میں اتارے گئے۔“ (تذکرة الا نبیائ: ص 60 )
حسان الہند مولانا سید غلام علی آزاد بلگرامی (م:1200ھ) رقم طراز ہیں:
”حضرت آدم علیہ السلام کی برکت سے ہندوستان میں جواہرات اور کانوں کا وجود ہے۔ کسی نے ہندوستان کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”اس کے سمندر موتی ہیں، اس کے پہاڑ یاقوت ہیں، اس کے درخت عود اور پتے عطر ہیں۔“
(شمامةالعنبر: ص 64، طبع جائس )
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہندوستان کی زمین اس لیے عمدہ اور ہری بھری ہے اور عود قرنفل وغیرہ خوشبوئیں اس لیے وہاں پر پیدا ہوتی ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام جب اس زمین پر آئے تو ان کے جسم پر جنّتی درخت کے پتے تھے۔ وہ پتے ہوا سے اُڑ کر جس درخت پر پہنچے وہ ہمیشہ کے لیے خوشبودار ہوگیا۔ (تفسیر نعیمی، جلد1 ، ص 284 )
مولانا سید غلام علی آزاد بلگرامی نے اپنے اشعار میں بھی ہندوستا ن کا ذکر کیا ہے۔ جس میں مذکورہ نکتہ کی وضاحت ہوتی ہے
قداودع الخلاق آدم نورہ
متلالاً کالکوکب الوقاد
والہند مہبط جد ناومقامہ
قول صحیح جیدالاسناد
فسوادارض الہند ضاءبدایة
من نور احمد خیرة الامجاد
ترجمہ: بنانے والے نے آدم علیہ السلام کے اندر اپنا نور رکھ دیا، روشن ستارے کی طرح چمکتا ہوا۔ ہندوستان ہمارے جد امجد کی جائے نزول اور قیام گاہ ہے ۔ یہ صحیح قول ہے اور اس کی سند مضبوط ہے تو ہندوستان کی سر زمین سب سے پہلے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے ضیا بار ہوئی جو سب عظمت والوں سے بہتر ہیں“۔
(شمامة العنبر: ص89 ، طبع جائس)
ڈاکٹر اقبال نے اسی نکتے کی وضاحت کچھ اس طرح کی:
ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام
ہند ہی بنیاد ہے اس کی،نہ فارس ہے، نہ شام
معلوم ہوا کہ ہندوستان سے ہمارا رشتہ عہد صحابہ، مجاہد اسلام محمد بن قاسم اور مغلیہ حکومت سے نہیں ہے بلکہ یہ تو ہمارے باپ کی سرزمین ہے۔ اسلام کی بنیاد اور اساس کا رشتہ ہندوستان کی سرزمین سے اتنا مضبوط ہے کہ ہمیں اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے شیو، وشنو، شنکر اور پاروَتی کو اسلامی پیغمبر کا درجہ دینے کی ضرورت نہیں ۔ ہمیں اپنے آپ کو ہندوستانی ثابت کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات و تاریخ کی دھجیاں اڑانے کی ضرورت نہیں۔ اپنے ہم وطنوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ناراض کرنے کی حاجت نہیں۔ شنکر، شیو، وشنو، پاروَتی اور دوسرے ہندو دیوی و دیوتاﺅں کو پیغمبر بنا کر، اپنے ماں باپ تسلیم کر کے، اپنے آپ کو ہندوستانی ثابت کر کے کیا فائدہ؟ ہمارے ہندوستانی ہونے کی سب سے مضبوط دلیل یہ ہے کہ ہمارے جد امجد اور دنیا کے سب سے پہلے انسان اسی سرزمین پر جنت سے تشریف لائیں۔ آئیے اسلامی تاریخ کی روشنی میں اسلام اور ہندوستان کا تعلق کس قدر مضبوط ہے، جاننے کی کوشش کریں۔
٭دنیا کے پہلے انسان ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے اسی دھرتی پر تشریف لائے۔ آپ کو ہندوستان میں ”سراندیپ“ کے ”لوذ۔یا۔راہون“ پہاڑ پر اتارا گیا۔
٭بلکہ پشتِ آدم کے حوالے سے ایک لاکھ کم وبیش چوبیس ہزار انبیا ومرسلین یہیں ہند میں اتارے گئے۔
٭سیدنا آدم علیہ السلام نے اسی سرزمین پہ اشک ندامت بہائے، تین سو سال تک روتے رہے اور آسمان کی طرف آپ نے حیا کی وجہ سے سَر نہیں اٹھایا۔
٭آپ نے دعائیں اسی جگہ مانگیں۔
٭آپ کی توبہ یہیں قبول ہوئی۔
٭پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ رب کی بارگاہ میں آپ نے اسی دھرتی پر پیش کیا۔
٭نبی آخرالزماں سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پاک کا نعرہ و غلغلہ زمین پہ سب سے پہلے یہیں بلند ہوا۔
٭بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت شیث علیہ السلام کا مزار پاک بھی ہندوستان میں ہے، ایودھیا میں بتایا جاتا ہے۔
٭ توالد و تناسل کا سلسلہ بھی غالباً یہیں سے شروع ہوا۔ گویا ہندوستان تمام مسلمانوں اور انسانوں کا آبائی وطن ہے۔
٭سید الملائکہ جناب جبرئیل علیہ السلام ایک نبی کی بارگاہ میں سب سے پہلے سر زمین ہند پہ آئے۔
٭سب سے پہلے اذان ہندوستان میں ہوئی۔
٭سب سے پہلی نماز بھی یہیں ہوئی جو آپ نے قبول توبہ کے شکرانے میں ادا فرمائی۔
٭آپ نے چالیس حج اور ایک ہزار عمرے بھی اسی سرزمین ہند سے مکہ شریف پیدل جا کر ادا فرمائے۔کعبہ چوں کہ آپ کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں کے ذریعے تعمیر ہو چکا تھا۔
٭جنتی اوزار: سانڈسی، ایرن اور ہتھوڑا ہندوستان میں اتار ے گئے۔
٭جنتی برگ وثمر اور خوشبوئیں یہیں اتاری گئیں۔
٭حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ انجیر کے پتّے، عجوہ ، کجھور، کیلا اور لیموں وغیرہ یہیں اتارے گئے ۔
٭فصل ،گل وشبنم، پیڑ پودے اور کھیتیاں سب سے پہلے اسی دھرتی پہ لہلہائیں۔
٭حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ہندوستانی جڑی بوٹی”عود ہندی“ کے استعمال پر زور دیتے تھے کہ اس میں سات بیماریوں سے شفا ہے۔
٭آج بھی دواﺅں میں استعمال ہونے والی بیشتر جڑی بوٹیاں اور خوشبوئیں ہندوستان میں پیدا ہوتی ہیں۔
فضائل ہند کی روایتیں مندرجہ ذیل کتب سے ماخوذہیں: بخاری شریف : کتاب الطب، ج2، ص849 تا 851 / سنن ابی داﺅد : کتاب الطب، ج2، ص541 /تفسیر الدر المنثور : سورئہ بقرہ ، ج1 ، ص 110 ، 115 / تفسیر مدارک شریف: ج3، ص68 / تفسیر روح البیان: ج1، ص 237 ۔ 498 / تفسیر نعیمی : ج1، ص290 تا 291 / تفسیر خازن وتفسیر جمل: حاشیہ صاوی، ج1 ، ص110-64/ حاشیہ شیخ زادہ: ج1 ، ص266 ، 267 ، 420/حاشیہ جلالین: ص131، حاشیہ نمبر2 / مدارج النبوة: ج1 ص 5۔
(بحوالہ: ماہنامہ کنزا لایمان مارچ 2010ء)
ہندوستان پر کئی مجاہدین نے فوج کشی کی مگر غزوہ ہند کا یہ ذوق محض کشور کشائی کے جذبے سے نہیں تھا بلکہ انہوں نے جہادِ ہندکے لیے پیش رفت ارشاد نبوی کی تکمیل کے لیے کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو حضرت ابن مریم کا ساتھ دے گا۔ (سلطان الہند خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ : ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی)
ابن ابوحاتم حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت کرتے ہیں،آپ نے فرمایا: مکہ مکرمہ اور ہندوستان سارے جہاں سے اچھا ہے۔ (تفسیر الدرالمنثور:ج 6، ص13، مطبع بیروت)
یقینا باستثناے دیار حرم اور روضہ رسول (کیوں کہ روضہ رسول کا وہ حصہ جہاں سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر موجود ہے وہ عرش اعظم سے بھی بہتر ہے)
ہمارا ہندوستان سارے جہاں سے اچھا ہے ، جہاں سے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بوے وفا محسوس کی۔ ہندوستان کی طرف دیکھ کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے ہیں۔ خود سرکارصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان فیض ترجمان سے ہندوستان کی سرزمین پر جہاد کرنے والے مجاہدین کو جنت کا مژدہ جاں فزا سنایا،ان پر جہنم کی آنچ حرام قرار دی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ ہندوستان آنے کے مشتاق رہتے تھے ، ان کی تمنا تھی کہ کاش میں ہندوستان کے کسی غزوے میں شریک ہوتا تو اپنی جان اور اپنا مال خرچ کرتا۔ (سنن نسائی: کتاب الجہاد ، باب غزوة الہند،ج2، ص52)
شاید انھی تمام خوبیوں کو دیکھتے ہوئے اور ان کی منظر کشی کرتے ہوئے شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اِس کی یہ گلستاں ہمارا
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
ہندوستان کی سرزمین جہاں ان تمام تر فضائل ومناقب اور خصوصیات کی حامل ہے وہیں اس دھرتی کو صحابہ کرام کا نقش پااپنے سینے پر اتارنے کا بھی شرف حاصل ہے ۔ان فضائل کے علاوہ بھی ہند کی دھرتی متعدد فضائل کی حامل ہے۔تفصیل کے لیے کتب تاریخ کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔ صوفیاے عظام،مشائخ کرام ، دعاة ،مبلغین اور اجلہ علما ے کرام کے دم قدم اور فیضان وبرکت سے ہر دور میں ہندوستا ن میں اسلام کی شمع روشن رہی اور ایمان کی باد بہاری سے ہر خطہ لہلہاتا رہا ۔ عہد بہ عہد شمع اسلام کی لَواور اس کی روشنی تیز تر ہوتی گئی اور چراغ سے چراغ جلتے چلے گئے۔
No comments:
Post a Comment