ڈاکٹرس کے ساتھ غیر اخلاقی حرکت :انتہائی قبیح عمل، جس کی مذمت ہونا چاہیے
ڈاکٹر عامر (ENT)کے المیزان ہاسپٹل میں ہوئے واقعہ کی ویڈیو اور شہر کے معزز قلمکاروں کے تاثرات
از: عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)
زمانہ قدیم سے پیشہ طب سے وابستہ ڈاکٹروں کی سماج میں بڑی عظمت ہے اور انہیں مسیحا سمجھا جاتا ہے۔مگر وقتاً فوقتاً معاشرے میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں مخلص اور اپنے کام کے تئیں ایماندار ڈاکٹرس کو نشانہ ہدف بنایا جاتا ہے۔ بظاہر دیکھا جائے تو کم علمی، جہالت اور اخلاقیات کی کمی ان واقعات کی وجوہات قرار دی جاسکتی ہیں مگر افسوس ایسا کام تو بظاہر انتہائی پڑھے لکھے اوربہترین وضح قطع رکھنے والے اور سمجھدار سمجھے جانے والے لوگ بھی کرتے ہیں۔15 فروری بروز پیر 2021ءکی شب شہر مالیگاﺅں میں ایسا ہی دلخراش سانحہ المیزان ہاسپٹل کے پروپرائٹر ڈاکٹر عامر (ENT)کے ساتھ پیش آیا جس کی پُر زور الفاظ میں مذمت کی جانا چاہیے۔ اسلام ایمان کے نچلے درجے کے متعلق کہتا ہے کہ برائی کو یکھ کر کم از کم دل میں برا جانے مگر شہر مالیگاﺅں میں معاشرتی برائیاںاتنے شباب پر ہیں کہ برائی کی حمایت میں بہت سے افراد کھڑے نظر آ جائیںگے، یہ شہر کی خستہ حالی ، معاشرتی بگاڑ اور دین سے دوری کی نشانیاں ہیں۔
اکثر ہاسپٹلس میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مریض انتظار کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے ہیں ، ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انھیں فوری طور پر چیک کر لیا جائے، جب کہ یہ افراد ہوٹلوں اور شاہراﺅں پر گھنٹوں یوں ہی بغیر مقصد کے گذار دیتے ہیں۔ انھیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر کوئی مریض ان کے بعد آکر ان سے پہلے چیک اپ کروا کر چلا جائے تو کیا وہ اس بات کو ہضم کر پائیں گے؟ کیا وہ ڈاکٹر کے متعلق بد گمانی کا شکار نہیں ہوںگے ؟ایسے مریضوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ان کی تکلیف تکلیف ہے اور بیٹھے ہوئے مریضوں کی تکلیف ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بالفرض اگر ایمرجنسی صورت حال بھی ہے تو اس کے لیے ” آئی پی ڈی “ کا دروازہ کھلا ہے، ” او پی ڈی “ میں اس طرح کی جلد بازی محض خام خیالی ہے ۔ اگر کسی انتہائی ضروری کام کے سبب او پی ڈی میں جلدی چیک اَپ کروانا چاہتے ہیں تو انتہائی نرم گفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے منتظمین سے بات کی جاسکتی ہے ۔ صرف اس بات پر ہاتھا پائی کا مظاہرہ کرنا کے مجھ سے انتظار کرنے میں صبر نہیں ہو رہا ہے ، معاشرے کے لیے انتہائی مضر اور نقصان دہ عمل ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ لاک ڈاﺅن میں سول ہاسپٹل کے ڈاکٹر کے متعلق ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا۔ اس کے بعد سول ہاسپٹل کا پورا عملہ آندولن پر بیٹھ گیا تھا، ڈاکٹرس کا ادارہ اور تمام ڈاکٹرس شہر کے ایم ایل اے کے سامنے کمر بستہ ہو گئے تھے۔ ایسا ہی مظاہرہ شہر کے ڈاکٹروں کی جانب سے بھی مذکورہ خاطیوں کے خلاف ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر عامر محمد مسلم نے جواہر میڈیکل کالج دھولیہ سے ایم بی بی ایس،مومنہ آباد (امباجوگئی)سے DLOکالج میں پوسٹ گریجویشن اور ایمس (دہلی )سے DNBکی ڈگری حاصل کی ہے ۔ سوسائٹی کی فلاح وبہبود ، نئی نسل کو حائل دشواریوںاور مریضوں کی ذہن سازی کی غرض سے راقم نے ڈاکٹر عامر سے 6جون 2018ءکو ایک انٹرویو میں شعبہ طب کی موجودہ صورت حال جیسے کٹ پریکٹس ، دوا ساز کمپنیوں کے ذریعے سیر و تفریح پر جانا اور لیباریٹری میں کچھ فیصد کا مختص ہونا جیسی برائیوں پر مبنی کئی سوالات کیے تھے،ان سوالوں کے جواب میں ڈاکٹر عامر نے انتہائی بیباکی سے اپنی بات پیش کی تھی، اس بیباک انٹرویو کا مطالعہ نوری اکیڈمی کی آفیشیل ویب سائٹ پرکیا جا سکتا ہے۔
ایسے صاف و شفاف کردار کے حامل شخص کے ساتھ اس طرح کا معاملہ پیش آنا انتہائی شرمندگی کی بات ہے۔ اس واقعے پر راقم نے مختلف احباب کے تاثرات کو جمع کیا جسے اصلاح معاشرہ کی غرض سے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے ۔
ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی (مدرس)
ڈاکٹر حضرات پر ہونے والے حملوں کی کسی بھی طرح سے حمایت نہیں کی جاسکتی ہاں اگر کوئی ڈاکٹر خاطی پایا جاتا ہے تو وہ الگ بات، لیکن عموماً دیکھا جارہا ہے کہ غیرضروری طور پر آئے دن ڈاکٹرز پر حملوں کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے، یہ ایک قابلِ مذمت بات ہے۔ اس طرح کی غیر اخلاقی حرکت اگر ایسے شہر میں ہو جس کی شناخت علم و ادب اور منبر و محراب کے حوالے سے ہو تو یہ واقعہ اور بھی زیادہ سنگین اور صد ہزار بار قابل مذمت ہو جاتا ہے ۔
طاہر انجم صدیقی
ڈاکٹر عامر صاحب کے ہاسپٹل میں جو معاملہ پیش آیا ہے وہ ہمارے شہر مالیگاو¿ں کے ایک خراب گوشے کو نمایاں کررہا ہے۔ ہمیں اس معاملے میں اس طرف دھیان دینا ہوگا کہ آخر پانی کہاں مررہا ہے؟ کچھ غلط فہمی ہوگی، کچھ زیادتی ہوگی، کچھ انانیت ہوگی، کچھ حق تلفی ہوگی، کچھ ناسمجھی ہوگی اور کچھ ناگزیر وجوہات کے سبب جو واقعہ منظرعام پر آیا ہے اس سے شہر کا نام تو روشن ہوا نہیں ہے بلکہ مالیگاو¿ں کے نام پر بٹہ ہی لگ رہا ہے اور شرمندگی بھی محسوس ہورہی ہے۔
یقینی طور پر اس قسم کے معاملات کو ذرا سے صبر و تحمل سے حادثہ بننے سے روکا جاسکتا ہے مگر افسوس کہ ہم اپنے سماج میں نہ جانے کیوں ذرا ذرا سی باتوں پر ایک دوسرے سے الجھ جاتے ہیں جبکہ ہمارے سامنے فتح مکہ جیسی بہت بڑی مثال موجود ہے کہ مکمل اختیارات، بھرپور طاقت اور انتقامی کاروائی کا تاریخی موقع ہاتھ آنے کے باوجود بھی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عفودرگزر کی جو مثال پیش کی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ہمیں بھی عفوودرگزر سے کام لینا چاہیے اور اچھے انسان کے ساتھ ہی اچھے مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کرنا چاہیے۔
اظہر جمیل (نیو اِرا )
معاشرے میں ڈاکٹرز، ہاسپٹلز اور کلینکس میں مار پیٹ، توڑ پھوڑ، بدزبانی و بد کلامی ایک تشویشناک امر ہے۔ ان معاملات میں ہورہی غلطیوں، غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کی وجہ جانتے ہوئے احسن طور نپٹارا سنجیدہ افراد کے ذریعے کیا جانا چاہیے اور ”مذمت “ اور ”مذمتی بیانات“ سے اوپر اٹھ کر عملًا اچھے و موثر انداز میں اس کا حل تلاش کرتے ہوئے ڈاکٹر اور مریض کے رشتے کو استوار کیا جاسکتا ہے۔
عمران جمیل (مدرس، نفسیاتی کاونسلر)
عموماً ہاسپیٹل کے سبھی ڈاکٹرز بہت ہی خوش اخلاق و نرم گفتار ہوتے ہیں لیکن جب کبھی بھی کسی بھی ہاسپیٹل میں بدتمیزی کے یا توڑ پھوڑ کے واقعات ہوتے ہیں تو جہاں مریضوں کے چند رشتے داروں کی غلطیاں ہوتی ہیں وہیں یہ بھی دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ ریسیپشنسٹ کے بیزارکن برتاو بھی بڑی وجہ بنے۔ مریض اپنی بیماری سے بےحد پریشان اور چڑچڑاہوتا ہے اور مریض کے رشتے اپنے مریض کی تکلیف سے دکھی اور اور پریشان ہوتے ہیں ایسے حالات میں ریسیپشنسٹ کی بڑی اہم ذمہ ہوتی ہے کہ وہ تحمل اور نرم گفتاری سے ہیش آئیں ۔عام طور پر معزز ڈاکٹرز بے خبر ہوتے ہیں کہ ویٹنگ میں کیا ہوا؟ کس نے کیا غلطی کی ۔بہرکیف مریض کے رشتے داروں کو کسی بھی ہاسپیٹل میں ڈاکٹرز اور عملے کے ساتھ نازیبا سلوک بالکل بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ورنہ پھر ایسے حالات میں سخت قوانین کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ڈاکٹر عامر صاحب ENT کے ہاسپٹل میں ہوئی توڑ پھوڑ و ہاتھا پائی کی میں مذمت کرتا ہوں۔
عارف انجم انصاری(آرٹسٹ)
اس واقعے کے متعلق متعددارباب قلم کے تاثرات راقم کے پاس موجود ہیں جنھیں یکے بعد دیگرے شائع کیا جائے گا۔ بارگاہ صمدیت میں دعا ہے کہ اللہ پاک سب کو عقل سلیم اور اُمت میں اتحاد و اتفاق عطا فرمائے۔ آمین
No comments:
Post a Comment