فضائل رجب المرجب
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی
سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان
اسلامی سال کے ساتویں مہینہ کا نام رجب المرجب ہے ۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے اور ترجیب کے معنی تعظیم کے ہیں ۔اہل عرب اس مہینہ کو اللہ تعالیٰ کا مہینہ کہتے تھے اور اس کی تعظیم کرتے تھے اس لئے اس کو رجب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔رجب کو اصم (بہرہ) بھی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس میں کسی فریادی کا آوازہ نہیں سنا جاتا تھا اور نہ ہی اس میں ہتھیاروں کی آواز سنی جاتی تھی ۔
اس مہینہ کی یکم تاریخ کو سیدنا حضرت نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے اور اسی ماہ کی چوتھی تاریخ کو جنگ صفین کا واقعہ پیش آیا ۔ اس ماہ کی ستائیسویں کی رات کو محبوب کبریا ﷺ نے معراج شریف کی ہے۔ جس میں آسمان کی سیر اور جنت و دوزخ کا ملاحظہ کرنا اور دیدار الہیٰ سے مشرف ہونا تھا ۔
اس مہینہ کو اصب بھی کہا جاتا ہے ۔کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و مغفرت نچھاور فرماتا ہے ۔اس میں عبادتیں مقبول اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں ۔ زمانہ جاہلیت میں جب مظلوم ظالم کےلئے بد دعا کرنا چاہتا تو رجب کے ماہ میں بد دعا کرتا جو مقبول بارگاہ الہٰی ہوتی ۔الغرض بہت سی حدیثیں اس کی عظمت شان پر دلالت کرتی ہیں ۔ (عجائب المخلوقات صفحہ45)
ماہ رجب کی فضلیت
رجب المرجب ان چار مہینوں میں سے ہے جن کو قرآن مجید نے محترم ذکر فرمایاہے ۔ چار مہینوں میں سے ایک معظم مہینہ رجب ہے اور کتب حدیث میں بھی رجب کی بڑی فضیلت واردہوئی ہے ۔چند حدیثیں ہدیہ قارئین ہیں ۔نبی مختار ﷺ نے فرمایا ”رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔“(ماثبت من السنة صفحہ 126)
”بے شک رجب عظمت والا مہینہ ہے اس میں نیکیوں کا ثواب دگنا ہو تا ہے ۔جو شخص رجب کا ایک دن روزہ رکھے تو (گویا ) اس نے سال بھر کے روزے رکھے ۔“(ماثبت من السنة صفحہ 126)
”رجب کی فضیلت باقی مہینوں پر ایسی ہے جیسے محمد مصطفےٰ ﷺ کی فضیلت باقی انبیائے کرام علیہم السلام پر ہے اور رمضان شریف کی فضیلت باقی مہینوں پر ایسی ہے جیسی اللہ تعالیٰ کی فضیلت تمام بندوں پر ہے ۔“(ماثبت من السنة صفحہ 128)
رجب شریف کے روزے
رجب المرجب کے مہینے میں روزے رکھنا کار ثواب ہے اور بڑا ثواب ہے ۔سردار انبیاءﷺ نے فرمایا:” رجب ایک عظیم الشان مہینہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ نیکیوں کو دگنا کرتا ہے جو آدمی رجب کے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے گویا اس نے سال بھر کے روزے رکھے ہیں اور جو کوئی رجب کے سات دن کے روزے رکھے تو اس پر دوزخ کے سات دروازے بند کئے جائیں گے اور جو کوئی اس کے آٹھ دن روزے رکھے تو اس کے لئے جنت کے آٹھ دروازے کھولے جائیں گے اور جو آدمی رجب کے دس دن روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا سوال کرے وہ اسے دے گا ۔ جو کوئی رجب کے پندرہ دن روزے رکھے تو آسمان سے ایک منادی ندا کرے گا کہ تیرے گزشتہ گناہ معاف ہو گئے ہیں اور اب نئے سرے سے عمل شروع کر اور جو زیادہ روزے رکھے گا اسے اللہ تعالیٰ زیادہ دے گا۔“(ماثبت من السنة صفحہ 126)
حکایت
سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ ایک پہاڑ کے قریب سے گزرے تو دیکھا کہ پہاڑ سے نور کی شعائیں نکل رہی ہیں تو آپ نے بارگاہ الہٰی میں عرض کیا ۔الہٰی ! پہاڑ کو اجازت دے کہ وہ میرے ساتھ کلام کرے ۔آپ کا اتنا ہی عرض کرنا تھا کہ پہاڑ نے عرض کی اے روح اللہ ! علیہ السلام آپ کیا پوچھناچاہتے ہیں ؟ تو آپ نے پوچھا کہ یہ تیری چمک دمک کیسی ہے ؟پہاڑ نے عرض کی کہ میرے اندر ایک مردِ خدا ہے جس کی برکت سے یہ ساری چمک دمک نظر آرہی ہے ۔پھر آپ نے بارگاہ رب العزت میں عرض کی کہ مولا! اس مردِ خدا کو میرے سامنے حاضر فرما۔تو پہاڑ پھٹ گیا اور اس سے ایک حسین و جمیل بزرگ ظاہر ہوئے ۔اس بزرگ نے کہا کہ میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے ہوں میں نے خدا بزرگ و برتر سے یہ دعامانگی تھی کہ میری عمر اتنی دراز ہو کہ حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ ﷺ کا عہد مبارک پا سکوں ،تاکہ میں بھی ان کی امت میں داخل ہوں ۔تو اس وقت چھ سو سال سے میں اس پہاڑ میں مصروف عبادت ہوں۔سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا الہٰی! کیا روئے زمین پر تیرے نزدیک اس شخص سے بھی بڑھ کر کوئی بزرگ ہے ۔تو اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) امت محمدیہ کا جو فرد رجب کے مہینہ میں ایک دن کا روزہ رکھے گا تو میرے نزدیک اس شخص سے بھی زیادہ بزرگ ہو گا۔ (نزہة المجالس جلد 1صفحہ 130)
حکایت
روایت ہے کہ سیدنا حضرت نوح علیہ السلام جب طوفان کے دنوں میں رجب کے مہینے میں کشتی پر سوار ہوئے تو آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا تو اس کی برکت سے کشتی چھ ماہ چلتی رہی اور عاشورہ کے دن جودی پہاڑ پر رکی اور جب کشتی سے اترے تو آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے روزہ رکھا اور اللہ کریم کا شکریہ ادا کیا۔(ماثبت من السنة صفحہ126)
بصرہ میں ایک عور ت بڑی عبادت گزار رہتی تھی ۔جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنی اولاد کو یہ وصیت فرمائی کہ مجھے ان کپڑو ں کا کفن پہنانا جن میں میں ماہِ رجب المرجب میں عبادت کرتی تھی ۔مگر اولاد نے اس کی وصیت پر عمل نہ کیا اور ان کپڑوں کے علاوہ دوسرے کپڑوں کا کفن دے دیا ۔
جب اس کے دفن سے فارغ ہوئے اور گھر آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ جن کپڑوں میں عورت کو کفن دیا تھا وہ تو گھر میں موجود ہیں اور اس کے کپڑے گھر سے غائب ہیں ۔اس سے ان کو بڑا تعجب ہوا ۔
اتنے میں ہاتف غیبی نے آواز دی کہ تم اپنے کپڑے پکڑ لو۔ ہم نے خود اس عورت کو ان کپڑوں کا لباس پہنا دیا ہے جس کی اس نے وصیت کی تھی ۔کیونکہ ہم اس عورت کو قبر میں غم زدہ نہیں دیکھنا چاہتے ۔اس لئے کہ وہ ماہِ رجب المرجب میں روزے رکھتی تھی ۔(نزہة المجالس جلد۱صفحہ130)
لیلة الرغائب کی فضیلت
ماہ رجب کی پہلی جمعرات کو لیلة الرغائب کہتے ہیں ۔اس کی فضیلت میں جو حدیثین مروی ہیں اگر چہ محدثین اپنے قاعدے کے مطابق انہیں موضوع بتلاتے ہیں مگر اجلہ اکابر اولیائے کرام کے نزدیک وہ صحیح ہیں ۔
اس رات میں مغرب کی نماز کے بعد بارہ رکعت نفل چھ سلاموں سے ادا کی جاتی ہیں ہر رکعت میں الحمدللہ شریف کے بعدانا انزلناہ تین دفعہ اور سورة الاخلاص بار بارہ دفعہ پڑھے ۔نماز سے فارغ ہو نے کے بعد یہ درود شریف ستر(70)مرتبہ پڑھے۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ ال±اُمِّیِّ وَعَلٰی اٰلِہ وَاَص±حَابِہ وَسَلَّمَ ۔
پھر سجدہ میں جا کر ستر(70)دفعہ یہ پڑھے ۔سُبُّو±ح’‘ قُدُّو±س’‘ رَبُّنَا وَ رَبُّ ال±مَلَائِکَةِ وَالرُّو±حُ۔اور سجدہ سے سر اٹھا کر ستر(70)بار پڑھے ۔رَبِّ اغ±فِر± وَار±حَم± وَتَجَاوَز± عَمَّا تَع±لَمُ فَاِنَّکَ اَن±تَ ال±عَلِیُّ ال±اَع±ظَمُ۔پھر دوسرا سجدہ کر لے اور اس میں وہی دعا پڑھے اور پھر سجدہ میں دعا مانگے جو دعا مانگے گا قبول ہو گی ۔ (ماثبت من السنتہ صفحہ 132،غنیة الطالبین جلد 1صفحہ182)
رجب کی ستائیسویں رات
رجب المرجب کی ستائیسویں رات بڑی بابرکت رات ہے کیونکہ اسی رات سید الانبیاءوالمرسلین ﷺ معراج شریف پر تشریف لے گئے اور دیدار الہٰی کی دولت سے مشر ف ہوئے لہٰذا ستائیسویں کے دن روزہ رکھنا چاہےے۔ حضور سراپا نور شافع یوم النشور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص ستائیسویں رجب کو روزہ رکھے گا اس کو ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب ملے گا۔(غنیہ الطالبین جلد1صفحہ182)
رجب کی ستائیسویں رات کے نفل
رجب کی ستائیسویں رات کو دو رکعت نماز نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد للہ شریف کے بعد قل ھو اللہ احد اکیس مرتبہ پڑھے ۔نماز سے فارغ ہو کر دس مرتبہ درود شریف پڑھے اور پھر کہے ۔اَللّٰھُمَّ اِنِّی± اَس±ئَلُکَ بِمَشَاھِدَةِ اَس±رَارِ ال±مُحِبِّی±نَ وَبِال±خِل±وَةِ الَّتِی± خَصَّص±تَ بِھَا سَیِّدَ ال±مُر±سَلِی±نَ حِی±نَ اَس±رَی±تَ بِہ لَی±لَةِ السَّابِعِ وَال±عِش±رِی±نَ اَن± تَر±حَمَ قَل±بِی± ال±حَزِی±نَ وَ تُجِی±بُ دَع±وَتِی± یَا اَک±رَمَ ال±اَک±رَمِی±نَ۔تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا ۔ اور جب دوسروں کے دل مردہ ہو جائیں گے تو اس کادل زندہ رکھے گا۔(نزہة المجالس جلد 1صفحہ130)
اللہ تعالیٰ ہمیں عبادت کا شوق عطا فرمائے ۔آمین!
No comments:
Post a Comment