شرف ملت سید محمد اشرف مارہروی کے متعلق سید فاروق میاں چشتی مصباحی کے تاثرات
اسٹیج پر بیٹھ کرچائے پینے اوراسٹیج پرایسے وقت آنے جس سے ذکر رسول منقطع ہو، پرہیز کرنا چاہیے ۔
از: عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)مالیگاﺅں
شرف ملت سید محمد اشرف مارہروی صاحب سے میری پہلی ملاقات بنارس میں منعقدہ ایک مشاعرہ میں ہوئی۔شرف ملت کی صدارت میں مشاعرہ اپنے شباب پر تھا ، شعراے کرام سامعین کو محظوظ کر رہے تھے، اسی اثناءمیں اسٹیج پر چائے آگئی ۔ شرف ملت نے شفقت سے چائے کا کپ میری جانب بڑھایا ، میں نے قبول کیا اور انتہائی ادب و احترام سے شرف ملت کی جانب پیش کر دیا۔ شرف ملت نے چائے کا کپ لیتے ہوئے مجھ سے دریافت کیا : ” کیا آپ چائے نہیں پیتے ہیں؟“ میں نے عرض کیا کہ پیتا ہوں مگر اسٹیج پر نہیں پیتا ہوں۔ شرف ملت نے بھی چائے کا کپ نیچے رکھ دیا۔ مشاعرہ ختم ہوا، ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا۔ تمام مشغولیات و مصروفیات سے فراغت کے بعد شرف ملت نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ اسٹیج پر چائے کیوں نہیں پیتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس کی دو وجہ ہے، اوّل اخلاقی اور دوّم شرعی۔ ممکن ہے سامعین میں کوئی ہم سے زیادہ چائے کا حاجت مند یا طلب گار موجود ہو، ہمیں چائے پیتا دیکھ کر اس کی طلب میں اضافہ ہوگا، یہ اخلاقی وجہ ہے۔اگر انتظامیہ مدعوین کو چائے ناشتہ کروانا چاہتے ہیں تو اسٹیج پر آنے سے پہلے کروائیں یا بعد میں اور اگر ان کی خواہش دوران پروگرام پیش کرنے کی ہو تو پھر سب کے لیے انتظام کیا جائے۔ شرعی وجہ میری نظر میں یہ ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنا تن من دھن قربان کر دیں گے۔ مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر جاری ہوتو ہم چائے یا شربت بھی نہیں چھوڑ سکتے، ساکن ہو کر ذکر خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہیں سن سکتے۔چائے ناشتے میں انسان کی توجہ ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ جاتی ہے، دل و دماغ کا تسلسل قائم نہیں رہ پاتا ہے، اس طرح ہمارا دعویٰ تو کھوکھلا ثابت ہوگا۔ اتنا سننا تھا کہ شرف ملت نے مجھے گلے سے لگا کر زور سے بھینچا ، دعائیں دیں اور جہاں تک میری معلومات ہے شرف ملت بھی اب اسٹیج پر چائے وغیرہ نوش نہیں فرماتے ہیں۔ مذکورہ کلمات کا اظہار حضرت سید فاروق میاں چشتی مصباحی صاحب نے راقم سے کیا۔
مورخہ 3 فروری 2021ءکو بعد نماز عصر مشفق دوست محمد عامر برکاتی صاحب کے ہمراہ حضرت سید فاروق میاں چشتی مصباحی صاحب سے شرف ملاقات کے لیے مالیگاﺅں میں موجود خانقاہ پر حاضر ہوا۔ عوام و خواص کا جم غفیر موجود تھا۔ سلام و دست بوسی کے بعد ڈاکٹر جاوید چشتی نے حضرت سے راقم کا تعارف کروایا۔ راقم نے حضرت کی خدمت میں اپنی تحریر کردہ کتابوں کا سیٹ پیش کیا۔ حضرت نے کتابوں کے ٹائٹل کا بغور مطالعہ کیا، چند کتابوں کی ورق گردانی کی اور پھر بہت ساری دعاﺅں سے نوازا۔بعدہ گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو دارالعلوم سلطانیہ چشتیہ (دھولیہ، مہاراشٹر)میں عظیم الشان لائبریری کا قیام، ای لائبریری کا انتظام ، جدید ٹیکنالوجی ، سول سروسیس اور پی ایچ ڈی جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا۔واضح ہو کہ 20 جنوری بروز بدھ 2021ءکو دارالعلوم سلطانیہ چشتیہ میں لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔ افتتاحی مجلس میں راقم بھی مع دوست واحباب کے شریک ہونا چاہتا تھا مگر پی ایچ ڈی کورس ورک کی لائیو کلاسیس کے سبب حاضری سے محروم رہا، البتہ راقم ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی صاحب کا ممنون و مشکور ہے کہ انھوں نے راقم کی ذاتی لائبریری سے چھ سات باکس پر مشتمل کتابیں افتتاح سے قبل لائبریری میں بذات خود پہنچا دیں۔ اس میں دو دہائیوں پر مشتمل ملک ہندوستان کے موقر رسائل و جرائد اور دینی و ادبی کتب شامل تھیں۔
دوران گفتگو حضرت سید فاروق میاں چشتی مصباحی صاحب کے پوچھنے پر جب میں نے بتایا کہ شرف ملت سید محمد اشرف مارہروی پر پی ایچ ڈی کر رہا ہوں تو بہت خوش ہوئے، دعاﺅں سے نوازا اورمذکورہ مشاہدات بیان کیے، سید محمد افضل میاں کی رحلت پر غم کا اظہار کیااور خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے کاموں کی خوب تعریفیں اور سراہنا کیں۔ سید چشتی صاحب نے یہ بھی کہا کہ چند اہل علم کی یہ عادت ہے کہ وہ اسٹیج پر اس وقت پہنچتے ہیں جب ان کے بولنے کی باری آتی ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب نعت شریف پیش کی جارہی ہوتی ہے یا ذکررسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا جا رہا ہوتا ہے۔ اسٹیج پر آمد سے نعروں سے ان کا استقبال ہوتا ہے ۔ کیا ایک عالم کو یہ زیب دیتا ہے کہ ان کے آنے سے ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم روک دیا جائے؟ ہماری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ تلاوت قرآن سے پہلے اسٹیج پر پہنچ جاﺅں اور اس وقت نیچے اُتروں جب ذکر ودعا اور سلام ہو چکا ہو۔ یہی عادت خانقاہ مارہرہ کے بزرگوں کی بھی ہے۔ خانقاہ کے سجادگان اور شہزداگان مختلف مصروفیات کے باوجود سامعین سے قبل منبر رسول پر موجود ہوتے ہیں، اس طرح بے ادبی کا شائبہ بھی ختم ہوجاتا ہے اور اصاغر نوازی کا درس بھی ملتا ہے۔ ارباب علم و فن کو چاہیے کہ اپنی قدر کروانے کی بجائے نامو س رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہیں ۔
اسی طرح راقم نے نعت خواں حضرات کو بارہا یکھا ہے کہ وہ موبائل اسکرین سے نعت شریف دیکھ کر پڑھتے ہیں، اس میں شرعاً کوئی قباحت تو نہیں مگر ان کا یہ عمل سامعین پر گراں گذرتا ہے اور پھر عشق رسول ایسے عمل کی اجازت کیسے دے سکتا ہے جو طبیعت پر گراں یا دکھاوے کا سبب ہو۔ انھیں چاہیے کہ وہ یا توکلام کو یاد کرلیں یا پھر قدیم شعراے کرام جس طرح ڈائری یا کاغذ پرلکھ کر لاتے تھے ، اسی قدیم نسخے پر عمل کریں۔ اس لیے کہ جس شخصیت کی مدح کی جارہی ہے ان کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی سے زندگی بھر کے اعمال غارت کر دیے جائیں گے۔ اللہ پاک ہم سب کو بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مودب بنائے۔ آمین
..:: FOLLOW US ON ::..
ماشاءاللہ بہت عمدہ۔
ReplyDelete