آمد ماہِ رمضان پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبالیہ خطبہ
از:عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر) مالیگاﺅں
جس دن رمضان المبارک کا چاند طلوع ہونے کی امید ہوتی اور شعبان کا آخری دن ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں صحابہ کرام کو جمع فرما کر خطبہ ارشاد فرماتے جس میں رمضان المبارک کے فضائل و وظائف اور اہمیت کو اجاگر فرماتے تاکہ اس کے شب و روز سے خوب فائدہ اٹھایا جائے اور اس میں غفلت ہرگز نہ برتی جائے، اس کے ایک ایک لمحہ کو غنیمت جانا جائے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے فرمودہ خطبہ کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
”حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم کو شعبان کے آخری دن خطبہ دیا، فرمایا:
﴿ اے لوگو! ایک بہت ہی مبارک ماہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
﴿ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے۔
﴿ جو شخص کسی نیکی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف قرب چاہے اس کو اس قدر ثواب ہوتا ہے گویا اس نے دوسرے ماہ میں فرض ادا کیا۔
﴿ جس نے رمضان میں فرض ادا کیا اس کا ثواب اس قدر ہے گویا اس نے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کیے۔
﴿ وہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔
﴿ وہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کا مہینہ ہے۔
﴿ اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔
﴿ جو اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جاتی ہے اور اس کو بھی اسی قدر ثواب ملتا ہے اس سے روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی نہیں آتی۔ اس پر صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیک و سلم ! ہم میں سے ہر ایک میں یہ طاقت کہاں کہ روزہ دار کو سیر کر کے کھلائے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ثواب تو اللہ اسے بھی عطا فرمائے گا جو ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ پلا دے۔
﴿ جس نے کسی روزہ دار کو افطاری کے وقت پانی پلایا اللہ تعالیٰ (روزِ قیامت) میرے حوضِ کوثر سے اسے وہ پانی پلائے گا جس کے بعد دخولِ جنت تک پیاس نہیں لگے گی۔
﴿ یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول رحمت ہے، اس کے درمیان میں بخشش ہے اور اس کے آخر میں آگ سے آزادی ہے۔
﴿ جو شخص اس میں اپنے غلام کا بوجھ ہلکا کرے اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے اور آگ سے آزاد کر دیتا ہے۔(مشکوٰة شریف،بحوالہ:ماہ رمضان کیسے گزاریں؟)
No comments:
Post a Comment