کچھ باتیں بیٹیوں اور بیٹوں کی ماٶں کے نام
مفتی خالد ایوب مصباحی شیرانی
(تحریک علمائے ہند ، جے پور )
اپنی بیٹی کو آپ جیسی چاہیں جدید تعلیم دلوائیں مگر ان کو گھر کے کام ضرور سکھائیں، انہیں سر چڑھا کر ناکارہ مت بننے دیں۔ محبت کریں، بیٹیوں کے احساسات کا خیال کریں،
ان کو اچھائی برائی میں فرق سکھا کر ضرورت کے مطابق آزادی بھی دیں مگر
ساتھ ہی ساتھ انہیں یاد دلاتی رہیں کے ان کے ہاتھوں میں آپ کی عزت ہے۔
مایوسیوں کی عادت نہ ڈالیں، اسے چھوٹی عمر سے گھریلو سرگرمیوں میں شامل کریں تاکہ انہیں بڑے ہوکر اور سسرال جاکر کام کرنا ظلم نہ لگے، اپنی بیٹی کو کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی نہ بنائیں، جس طرح ایک مرد جو کمانے سے جی چرائے اور اپنی بیوی بچوں کی ذمہ داری نہ اٹھائے وہ عوامی زبان میں ہڈ حرام
کہلاتا ہے بالکل اسی طرح وہ عورت جو گھر کے کاموں سے جی چرائے، جسے گھر
سنبھالنا نہ آئے وہ بھی اس نکمے مرد کی طرح ہڈ حرام کہلانے کی مستحق ہوتی
ہے۔
بیٹیوں کی شادی سے پہلے ان کے منہ میں لگی چسنی چھڑوا دیں۔ سسرال
والے آپ کی بیٹی کو بہو بنانے آئیں گے اسے گود لینے نہیں۔ کم از کم اتنا
کام ضرور سکھا کر بھیجیں کے لڑکی کو وہاں کا کام دیکھ کر یہ حیرانی نہ ہو
کہ اچھا گھر میں یہ سب بھی ہوتا ہے؟
اپنی بیٹیوں کو ایک مکمل ذمہ دارعورت بنائیں،
انہیں بتائیں کہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو کہ تمام جنت
کی عورتوں کی سردار ہیں وہ بھی اپنے گھریلو کام خود کیا کرتی تھیں، اس لیے
گھر کے کام کرنے میں تمہاری کوئی تذلیل نہیں ہوگی، اشد ضرورت اور دکھ
بیماری کے وقت ملازموں کی مدد ضرور لی جا سکتی ہے مگر خود کو ان کا عادی
بنا لینا کاہلی اور سستی کے سوا اور کچھ نہیں،
آپ کی بیٹی کی گود میں آپ کی اور اس کے نصیب میں لکھے ہوئے مرد کی پوری
نسل پروان چڑھے گی ایک نکھٹو عورت پوری نسل کو نکما بنانے کی طاقت رکھتی ہے، ہمارے ارد گرد ایسے کئی سلجھے ہوئے اور پڑھے لکھے خاندان موجود ہیں جن کے گھر کے ماحول اور نسل کو ایک نکمی عورت نے آ کر تباہ کیا ،
خدارا اپنی بیٹیوں کو ناکارہ مت بنائیں۔
اپنے بیٹوں کو مرد پورا بنائیں ادھورا نہیں۔
اپنے بیٹوں کو راجہ اندر نہ بنائیں انہیں رف اینڈ ٹف بنائیں، آپ کے بیٹوں نے آگے جا کر ایک پوری نسل کی رہائش، نان، نفقے اور پرورش کا انتظام کرنا ہے۔ ایک لڑکی جو آپ کے بیٹے کے نکاح میں ہوگی اس کے سر کا تاج اور چھاٶں بننا ہے۔ آپ کے بڑھاپے میں آپ کا سہارا بننا ہے ۔ بے جا لاڈ پیار اور پیمپرڈ لڑکے نکمے اور نکھٹو ہو جاتے ہیں ۔ نہ اچھے شوہراور نہ اچھے باپ ثابت ہوتے ہیں، ایسے مرد چھچھوندر کی طرح دبکے بیٹھے رہتے ہیں، ان سے ذمہ داریاں سنبھالی نہیں جاتیں، مائیں جب اپنے بیٹوں کو بے جا لاڈ پیاراورلاپروائی سے بگاڑ دیتی ہیں تو کہتی ہیں کہ اس کی شادی کروا دو یہ خود صحیح ہو جائے گا۔ نہیں بی بی، وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوگا، جس کو جیسی تربیت مل جائے وہ ویسا ہی رہتا ہے اور ہزاروں لاکھوں لڑکیاں شادی کے بعد ایک بچہ پیدا کرکے یا تو ماں باپ کے گھرآ کر بیٹھ جاتی ہے کیوں کہ شوہر سے خرچہ نہیں پورا ہوتا، نشہ کر کے پڑا رہتا ہے۔ یا پھر دو تین بچے ہونے کی صورت میں بچوں کو باپ کا نام دینے کی خاطر خود کوئی چھوٹی موٹی جاب کر کے اس نکمے مسٹنڈے کا اوراپنی اولاد کا خرچہ خود اٹھاتی ہیں، کئی ایسے بھی کم ظرف ہیں جو کچھ نہ کر کے بھی نا صرف بیوی کی کمائی ہڑپ لیتے ہیں بلکہ ساتھ ہی اپنے گھر والوں کا خرچہ بھی بیوی سے اٹھواتے ہیں، حد سے زیادہ لاڈ انسان کو ذہنی طور پر کمزورکرتا ہے اسے ہر وقت لاڈ اٹھوانے کی عادت نہ لگنے دیں اس سے ذہن کبھی میچیور نہیں ہو پاتا۔ ایسے لڑکے شادی کے بعد یا تو ماں کی گود سے اترنے کو تیار نہیں ہوتے، انہیں ماں کے سامنے بیوی کی طرف دیکھنا بھی گناہ کبیرہ لگتا ہے یا پھر اگر بیوی چاپلوسی کرنے والی مل جائے تو اس کے بہکاوے میں آکر ماں باپ کو بری طرح نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اپنے بیٹوں کو سخت جان اور ذمہ داری اٹھانے والا بنائیں، انہیں شادی سے پہلے اپنی گود سے اتار کر زمانے کی ہوا لگایے تا کہ زمانے کے سردوگرم اور زندگی کے اتار چڑھاؤ سے کچھ سیکھ سکھیں، انہیں ناکارہ اور کارآمد میں فرق سکھائیں، لہذا محنت کر کے ذمہ داری اٹھانے میں تمہاری مردانگی کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچے گی۔
لڑکوں
کو تقریبا 14 سال کی عمر سے ہی گھر کے اہم فیصلوں میں شامل کریں۔ ان کی
رائے کو مثبت سمت دے کر اہمیت دیں۔ ان پر گھر سے باہر کے چھوٹے موٹے کاموں
کا بوجھ ضرور ڈالیں، گھر میں اپنے پلو سے باندھ کر ان کی مردانہ صلاحیتوں
کو پھپھوندی مت لگنے دیں۔ ایک نکما مرد کئی افراد کی زندگیوں کو تباہ کرتا
ہے۔ اپنے بیٹوں کو پورا مرد بنائیں ادھورا نہیں ۔
خلاصہ:
بیٹا ہو یا بیٹی اس کی طبیعت اور مزاج میں سستی کاہلی اور نکمے پن کو جمنے نہ دیں۔ انہیں کارآمد بنائیں۔ ناکارہ اشیا کی جگہ گھر نہیں کباڑ خانہ ہوتا ہے۔ اپنے پیارے بیٹے اور بیٹیوں کو کباڑ بننے سے بچائیں۔
No comments:
Post a Comment