طلبا کی کامیابی و ترقی میں اُستاذ کا کردار
تحریر: محسن رضاضیائی ,پونہ، مہاراشٹر-9921934812
اِنسان کی کامیاب زندگی اور کردار سازی میں استاذ کا رول بہت ہی اہم ہوتا ہے، کیوں کہ استاذ اپنے طلبا کی نشوونما، تعلیم و تربیت اور تعمیرشخصیت میں جو کردار ادا کرتا ہے، وہ لائقِ صد افتخار ہوتا ہے۔ طلبا کی کامیابی اور ترقی میں استاذ کی ایثار و قربانی اورحد درجہ عرق ریزی شامل ہوتی ہے۔ طلبا تعلیم و تربیت سے خالی اور عقل و شعور سے عاری ہوتے ہیں، لیکن استاذ تعلیم و تربیت سے ان کی شخصیت کو سنوارتا ہے اور ان کے عقل و شعور کو پختگی و بالیدگی عطا کرتا ہے۔ اسی لیے کہاجاتا ہے کہ ہر کامیاب انسان کی زندگی کے پیچھے ایک استاذ کی جد و جہد کارفرما ہوتی ہے۔انسان پتھر ہوتا ہے، لیکن استاذ اپنی محنت و جاں فشانی اور شفقت و مہربانی سے اسے تراش و خراش کرکے ایک گوہرِ آبدار بنادیتا ہے، جو نہ صرف خود چمکتا دمکتا ہے، بلکہ ساری دنیا کو چمکادیتا ہے۔
استاذ طلبا کے ذوقِ علم، شعورِ فن اور قوتِ فکرو تخیل کو بھی پروان چڑھاتا ہے اور انہیں کامیابیوں اور ترقیوں کے بامِ عروج پر پہنچادیتا ہے، جہاں وہ پرواز کرتے ہوئے آفاق کی بلندیوں کو چھولیتے ہیں ۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ کوئی بھی انسان بغیر استاذ کے عروج و ارتقا کے منازل طے نہیں کرسکتا ۔اس لیے کہ وہ ان منزلوں کی راہوں اور مسافتوں سے نا آشنا اور اجنبی ہوتا ہے اسی وجہ سے وہ کامیابی و ترقی کے ہر سفرمیں استاذ کی صحبت و معیت کا محتاج ہوتا ہے۔
انسان بذاتِ خود کچھ نہیں ہوتا ہے بلکہ استاذ اُسے ایک قابل، باصلاحیت اور با ہنر بنانے میں اپنا بنیادی اورکلیدی رول ادا کرتا ہے پھر وہ چاہے کسی بھی بڑے عہدہ و منصب پر فائز ہوجائے لیکن وہ اپنے استاذ کی عنایتوں اور نوازشوں کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔اسی لیے اپنے استاذ کو کسی بھی حال میں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اگر وہ ہماری زندگی میں نہ ہوتے تو آج ہم جہالت و تاریکی اور ضلالت و گمرہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہے ہوتے۔ یہ ان کی غایت درجہ مہربانی ہے کہ ہمیں تاریکی سے نکال کر علم و عمل کی روشنی کی طرف لے آئے ہیں۔
استاذ اور طلباکے درمیان کا رشتہ بھی بہت ہی گہرا اوراہم ہوتا ہے۔ استاذ ان کے لیے باپ کی منزل میں ہوتا ہے، جن کی وہ ہر ہر قدم پر تربیت و نگہ داشت کرتا رہتا ہے۔ ان کی اصلاح و درستگی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ حقیقی والد طلباکے جسمانی باپ اور استاذ ان کا روحانی باپ ہوتا ہے، جو ان کی تعلیم و تربیت سے لے کر شخصیت کی تعمیر و ترقی تک اپنے فرائض کو بہ طریقِ احسن انجام دیتا ہے، جو استاذ کا اپنے طلباد پر ایک بہت بڑا احسان ہے۔ لہذا طلبا کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے استاذِ مکرّم کے ساتھ احترام وادب سے پیش آئیں، ان کی خدمت و فرماں برداری کو اپنے اوپر لازم جانیں، ان کے ہر حکم کو بجا لائیں، ان کی نصیحتوں اور باتوں پر مکمل طور سے عمل کریں، ان کی شان میں بے عزتی اور گستاخی کی ہرگز جسارت نہ کریں، بلکہ ان کے ساتھ ہمہ وقت خندہ پیشانی اورخوش خُلقی سے پیش آئیں، اسی میں طلبا کی فلاح و کامرانی کا راز مضمر ہے۔یاد رکھیں کہ جو طلبا اپنے استاذ کی عزت و تکریم اور ادب و تعظیم نہیں کرتے ہیں اور ان کی توہین و گستاخی کرتے رہتے ہیں وہ زندگی میں کبھی کامیاب اور سرخرو نہیں ہوپاتے ہیں ہے، بلکہ زمانے کی در در ٹھوکریں کھاتے پھرتے رہتے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ استاذ ایک محترم اور مہتم بالشان شخصیت ہے، جس کی عظمت و اہمیت اور مقام و منزلت کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے وقت کے بڑے بڑے علما، ائمہ، سلاطین و اساطین اور دانشوران نے اپنے استاذ کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا ہے اور ان کا اِحترام و ادب بجا لایا ہے۔ بلکہ کتبِ تواریخ و سِیر کے مطالعہ سے یہ بات خوب ظاہر ہے کہ معلمِ کائنات فخرِ موجودات محمد رسول اللہ ﷺ کے شاگرد صحابہ ہمہ وقت اپنے استاذ و مربی حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمتِ عالیہ میں رہا کرتے اور آ پ کے آگے زانوے تلمذ تہہ کیاکرتے تھے۔ادب و احترام اس طرح بجا لایا کرتے تھے کہ پلکیں بھی جھپک نہیں پاتی تھیں۔صحابۂ کرام نے جس طرح اپنے استاذ و مربی معلمِ انسانیت حضور ﷺکا پاسِ ادب کیا ہے، آج اپنے استاذ کے ساتھ بھی اسی طرح احترام و ادب سے پیش آنے کی ضرورت ہے۔
جس طرح طلباکی اپنے استاذ کے تئیں کئی ایک ذمہ داریاں ہوتی ہیں، وہیں استاذکے کندھوں پر بھی طلبا کے روشن مستقبل کو لے کر بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ طلبا کو اپنے استاذ سے تعلیم و تربیت کی جو جستجو اور آس رہتی ہے، وہ کسی اور سے نہیں رہتی، وہ اپنے گھر ،خاندان اور عیش و آرام سب کو خیر آباد کہہ کر تلاشِ علم میں تگ و دو کرکے استاذ کی درسگاہ میں آتے ہیں،اس امید پر کہ اُنہیں یہاں سرچشمۂ علوم و فنون سے سیرابی حاصل ہوگی۔لہذا استاذ کو بھی اپنے طلبا کی ان امیدوں اور آرزوں پر کھرا اترنے اور انہیں زیورِ علوم و فنون سے آراستہ و پیراستہ کرکے اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
اخیر میں بس اتنا عریضہ ہے کہ استاذ و طلبا دونوں مغربی اقدار و اطوار سے متاثر نہ ہو اور اپنی درسگاہوں کی قدر و منزلت اور ادب و ثقافت کو زندہ و برقرار رکھیں، اسی میں ہماری درسگاہوں اور اداروں کی عزت و بقا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اساتذۂ کرام کا احترام و ادب کرنے، ان کی اطاعت و خدمت کرنے اوران کی نصیحتوں پر وفورِ عمل کی توفیقِ ارزانی عطا فرمائے۔ آمین
..:: FOLLOW US ON ::..
![]() |
![]() |
![]() |
No comments:
Post a Comment