لَوجہاد: سیاسی کرسی کی بحالی ، مسلمانوں کو بدظن اور اسلام کو بدنام کرنے والا ہتھکنڈہ
اگر کسی ہندو لڑکی سے شادی کرنے کو ” لو جہاد “ کہا جاتا ہے تو پھر ان ہندووں کے لیے کون سا لفظ استعمال ہوگا جن کی مسلمان بیوی ہے؟
از:عطاءالرحمن نوری ،مالیگاوں(ریسرچ اسکالر)
”لَو جہاد“اصطلاح نہ جانے کس کے ”ذہنِ نارسا“کی اختراع ہے۔اہل زبان جانتے ہے کہ یہ ایک بے معنی ترکیب ہے۔”لَوجہاد“ کا جھوٹا پروپیگنڈہ پہلی بار نہیں کیاجا رہا ہے بلکہ” ہندولڑکیوں کے دھرم پریورتن کی سازش“کے نام سے یہ تحریک کئی برسوں سے کئی ریاستوں میں جاری تھی جس کا دائرہ اب مزید وسیع ہوکر قانونی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ فرضی قصے ،کہانیوں اور من گھڑت الزامات کے ذریعے کچھ مذہبی جنونی اورفرقہ پرست عناصر ملک کا ماحول خراب کررہے ہیں۔ان مذہبی جنونیوں نے کسی”لَو گرو تنظیم“ کے ذریعے مسلم لڑکوں کے ذریعے ہندولڑکیوں کو عشق ومحبت کے جال میں پھنسانے کا بے بنیاد الزام لگایاہے اورایسے بےہودہ کام کرنے والے نوجوانوں کو لَوگرو تنظیم کے ذریعے دی جانے والے امدادکا انکشاف بھی کیاجا رہا ہے ، جو کس قدر مضحکہ خیز ہے۔ان کا کہناہے کہ لَو گرو نامی کل ہندتنظیم کسی ایک ہندو لڑکی کو عشق کے جال میں پھنسانے اور اسلام قبول کروانے والے مسلم لڑکے کو (۱)ایک لاکھ روپے نقد(۲) عالیشان گاڑی(۳)موبائیل فون اور (۴)فیشن ایبل کپڑے دیتی ہے۔مزید تعجب خیز الزام یہ عائد کیاکہ اس تنظیم نے اب تک چار ہزار لڑکیوں کا دھرم پریورتن کروایا جس میں اس نے ڈھائی سو کروڑروپے خرچ کیے ہیں۔اگر ان الزامات کو وقتیہ درست مان بھی لیاجائے تو لوگرو تنظیم کے پاس اتنی خطیر رقم آئی کہاں سے ہے ؟ اتنی بڑی تنظیم حکومتی اداروں ، انٹلی جنس اداروںاور خفیہ محکموں کی نظر سے محفوظ کیسے ہے؟اس تنظیم کے کون کون سی ریاست میں کون کون نمائندے ہیں؟کروڑوں روپیوں کی خریدوفروخت انکم ٹیکس آفیسران کی نظروں سے پوشیدہ کیوں ہے؟وغیرہ وغیرہ۔
الزامات کی حیثیت ہوا میں گھل مل جانے والے الفاظ کی ہوتی ہے۔الزامات کے ذریعے لمحاتی پریشانی لاحق ہوتی ہے مگر حقیقت کے سامنے الزامات راکھ کا ڈھیر ثابت ہوتے ہے۔ درحقیقت فرقہ پرستی اور نفرت کی سیاست کرنے والی چند پارٹیوں کا وطیرہ بن گیاہے کہ ہر معاملے کو مذہب کا رنگ دے کرسیاسی فائدہ حاصل کیاجائے چاہے اس میں کتنے ہی بھارتیوں کی جان چلی جائے۔ان فرقہ پرست جنونیوں کودرج ذیل تین نکات پر سوچنا چاہیے:
(1) اسلام ایسا مقدس مذہب ہے جونکا ح جیسے پاکیزہ رشتے میں بندھنے والے دولہا دلہن کوبھی نکاح سے قبل ملنے جلنے کی اجازت نہیں دیتا،وہ مذہب اپنے ماننے والوں کو غیر مسلم کے ساتھ عشق ومعاشقے کی اجازت کیوں کردے سکتاہے؟
(2) اسلام مومنین کی تعداد کو بڑھاناچاہتاہے منافقین کی نہیں۔اس طرح پیسے کے بل بوتے اور جنسی خواہشات کی تکمیل کی بنیاد پر سچے مومنین میں اضافہ ممکن ہی نہیں۔
(3) مسلم سماج میں لڑکیوں کی کمی نہیں،پھر کیوں کوئی نوجوان باحیا،باکردار اور بااخلاق مسلم لڑکیوں کو چھوڑ کر ایسی لڑکی کی طرف جائے جس کا رشتہ اپنے مذہب سے اتنا کمزور ہو کہ عشق کے چند بناﺅٹی جملوں اور سکوں کی کھنک سے ٹوٹ جائے۔
معلوم ہوایہ ہتھکنڈہ محض سیاسی کرسی کی بحالی اور مسلمانوں کو بدظن اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے ،ورنہ تاریخ کے اوراق کھنگالیے تو مذہب کے ان ٹھیکیداروں کے گھروں میںمسلم نوجوانوں سے شادی کرنے کا رجحان زیادہ رہاہے۔سیکڑوں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ہندووں نے خوشی خوشی اپنی بیٹی کے لیے مسلم لڑکے کا انتخاب کیا ہے اور درجنوں ایسی بھی مثالیں ہیں کہ مسلم لڑکیوں نے بھی غیر مسلموں سے شادیاں کی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی ہندو لڑکی سے شادی کرنے کو ” لو جہاد “ کہا جاتا ہے تو پھر ان ہندووں کے لیے کون سا لفظ استعمال ہوگا جس کی مسلمان بیوی ہے؟
ہماری ہر ہندوستانی سے اپیل ہے کہ اس ایشوکے ذریعے بھولے بھالے شہریوں کو دھوکہ دینے کی جو ناپاک کوشش کی جارہی ہے،اسے ناکام کریں،ماحول کو سازگاربنائے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور ہر شہر کے بااثر اور اعلیٰ حکام تک رسائی رکھنے والے احباب کو چاہیے کہ ملکی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والوں اور مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے والوں سے ایسے بے بنیاد الزامات کے متعلق حکومتی سطح پرباز پُرس کی جائے اورملکی فضاکو آلودہ کرنے سے انھیں روکاجائے۔
..:: FOLLOW US ON ::..
![]() |
![]() |
![]() |
No comments:
Post a Comment