” نیکی کر سوشل میڈیا پر ڈال “:پُرانی کہاوت کا نیا وَرژن
آفات پر پیش کی جانے والی ریلیف ”امداد“کم ، تشہیر کا ذریعہ زیادہ معلوم ہوتی ہے
![]() |
Add caption |
از:عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)، مالیگاوں
آج معاشرے کا ہر خاص وعام شخص سوشل میڈیاپر اپنے وجود کا احساس دلاناچاہتاہے اور اس کام کے لیے وہ اپنی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے کام کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر شیئر کرکے تعریف پر مبنی کمنٹس اور ڈھیروں لائیک کا منتظر ہوتا ہے۔ راقم کو اس پر کلام نہیں کرنا کہ ایسے حضرات دوسروں کو ترغیب دینے کی نیت سے ایسا کرتے ہیں یا انھیں ریاکاری کا مرض لاحق ہوگیا ہے ۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ سوشل میڈیا کی چمک دمک نے ہماری آنکھوں کو ایسا خیرہ کردیا ہے کہ اب کیا دیندار اور کیا دنیا دار ، اکثر و بیشتر نے پوشیدہ مدد ،سیدھے ہاتھ سے صدقہ کرنے پر بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہونے والی روایت اور صحابہ و سلف و صالحین کے جذبہ خیر خواہی و خیر سگالی کے انداز کو فراموش کر دیا ہے۔ماضی میں کہاوت مشہور تھی ” نیکی کر دریا میں ڈال “ ،مگر اب اس کہاوت نے نیا روپ اختیار کر لیا ہے ” نیکی کر سوشل میڈیا پر ڈال “۔
آفات ارضی و سماوی پر پیش کی جانے والی ریلیف ”امداد “ کم اور تشہیر کا ذریعہ زیادہ معلوم ہوتی ہے۔دنیا دار لوگوں سے تو کوئی شکوہ و شکایت ہی نہیں ، کیوں کہ ان کے عمل کا مقصد ہی ڈھنڈورا پیٹنا اور دِکھاوا کرنا ہوتا ہے تاکہ بوقتِ ضرورت فلاح ِ اُمت کے نام پر اپنا اُلّو سیدھا کیا جاسکے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ اس تشہیری مہم میں ایسے افراد بھی بکثرت نظر آتے ہیں جو مخفی امداد پر گھنٹوں درس و تقریر کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ایسے اداروں کے سربراہان یا ذمہ داران اپنی جیبِ خاص سے مفلوک الحال اور حاجت مندوں کی مدد کر رہے ہیں ۔ عوام کے پیسوں پر خود کے لیے واہ واہی بٹورنا انتہائی درجے کی قبیح حرکت ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسے بھی مفکرین ہیں جو دینی ،ملی اوراندرونی مسائل کو سوشل میڈیاپر اُچھال کر یہ سوچتے ہیں کہ ہم فلاں شخص یا فلاں جماعت کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ ہم اپنے مسائل سے اغیارکوکیوں باخبر کررہے ہیں؟ گھر کی بات گلی گلی کیوںگھوم رہی ہے؟ کیاہمیں علم نہیں کہ دشمنان اسلام ان باتوں سے فائدہ اُٹھا کر اسلام کو شرمندہ کرنے کی کوششیں کرتے ہیں؟اگر کسی جلسہ یا محفل میں کوئی غیر مسلم اسلام قبول کر لے تو اس خبر کو بطور پبلسٹی استعمال کیا جاتاہے۔ہر مکتبہ فکر کا آدمی اس خبر کے ذریعے واہ واہی بٹورنا چاہتا ہے جب کہ ہم لَوجہاد اور دھرم پریورتن جیسے مسائل سے نبرد آزماہیں۔ویسے بھی اسلام دین فطرت ہے ۔اسلام ہر ایک انسان کا دین ہے۔دیر سویر ہر انسان کو یہ مذہب قبول کرنا ہی ہے۔پھر کیوں اس پر واویلا مچا کر غیروں کو باخبر کیاجاتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ اخباربازی سے گریز کرتے ہوئے نَو مسلم کی تعلیم وتربیت پر زور دیا جاتا۔
بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ دعوت و تبلیغ کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال کرنا چاہیے ۔ جی ہاں ! بے شک کرنا چاہیے۔ جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال اور اس پر خود کی تشہیر میں بہت فرق ہے۔ دعوتِ دین کے جدید تقاضوں میں ہم اتنے اُلجھ کر رہ گئے ہیں کہ ماضی میں جن بنیادوں پر ہمارے اسلاف نے دین کی عمارت کو مضبوط ومستحکم کیاتھا،ان بنیادوں پر ہم نے محنت کرنا کم یابالکل بند ہی کردیا ہے۔اکابر واسلاف کے نقوش اور ان کا طریقہ تبلیغ دن بہ دن دُھندلا ہوتا جارہاہے۔روحانی محفلوں کا انعقاد،تزکیہ قلب کی مجلسیں،ذکرواذکار کی بزمیں اور خانقاہی تصور ناپیدہوتا جارہا ہے۔دو چار گھنٹوں پر مشتمل دھنواں دھار تقاریر والے چند اجلاس، کچھ لڑیچر اور چھوٹی چھوٹی کامیابی پر بڑی بڑی تشہیر ہمارا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ دعوتِ دین کے جدید تقاضوں سے انکار نہیں مگر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ سب کچھ یہی نہیں ہے۔ان چیزوں کے ساتھ صوفیاے کرام کا طریقہ،خانقاہی نظام اور انفرادی محنت جیسے اہم اُمور پر بھی خاطرخواہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
آج کا مسلمان مادیت پرستی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ صرف بیان بازی سے اخلاق وکردار کو نہیں بدلاجاسکتا۔سوشل میڈیاسے کسی کے ضمیر کو نہیں بدلا جاسکتا،محض واٹس ایپ ، فیس بک اور سوشل رابطے کی ویب سائٹ سے کسی کو دین دار نہیں بنایا جا سکتا۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نفسیات کو پَرکھا جائیں،برائیوں کے شجر کوتحقیق وتفتیش کے بعد جڑوں سے اُکھاڑ پھینکا جائے،اخلاق ،کردار،اعمال ومعمولات میں انقلاب آفرین تبدیلی کے لیے اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کام کیاجائے،ماضی کی بنیادوں پر حال کو استوار کیا جائے اور اسلاف کے عطا کردہ خطوط پر متاع حیات کو گامزن کیاجائے تاکہ امید افزانتائج حاصل ہو۔
..:: FOLLOW US ON ::..
![]() |
![]() |
![]() |
No comments:
Post a Comment