سیدنا امام جعفر صادق : خانوادہ نبوت کے عظیم چشم و چراغ
متقی،نیک،پارسا، مخلص ، دین متین کی تاحیات خدمت انجام دینے والے اورراہِ خدا میں جان نثار کرنے والے
از:عطاءالرحمن نوری مالیگاﺅں
ائمہ اہل بیت اطہار میں سے یوسف سنّت جمال طریقت،مزین صفوت سیدنا ابو محمد امام جعفر بن محمد صادق الملقب بہ امام باقر بن امام زین العابدین بن سیدالشہداء امام حسین بن علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔آپ کاحال بلند،سیرت پاکیزہ، ظاہرو باطن آراستہ وپیراستہ اور شمائل وخصائل شستہ ومنورتھے۔ آپ کے ارشادات تمام علوم میں خوبی اور رقت کلام کی بنا پرمشہور ہیں اورمشائخ طریقت میں بااعتبار لطائف ومعانی معروف ہیں۔ علوم کی باریکیوں اور کتاب الٰہی کے رموزواشارات اور اس کے لطائف واضح طور پر بیان کرنے میں آپ کوکمال دسترس تھی ۔ آپ پوری پوری رات عبادت وریاضت،درودووظائف کی کثرت میں گذار دیتے۔
ایک مرتبہ آپ کے خادم نے عرض کیا:اے ہمارے امام!یہ گریہ وزاری کاسلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ آپ نے فرمایا: ائے دوست! حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک فرزند حضرت یوسف علیہ السلام نظروں سے روپوش ہوئے تھے تو اس پر وہ اتنا روئے تھے کہ ان کی آنکھوں کی بصارت جاتی رہی اور آنکھیں سفید ہو گئی تھی۔ لیکن میرے خاندان سے 18 نفوس حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی رفاقت میں میدان کربلا میں شہید ہوئے، یہ غم کیا کچھ کم ہے؟ کیا میں ان کے غم وفراق میں اپنے رب کے حضور فریاد کرکے کیوں آنکھیں سفید نہ کروں؟ آپ انتہائی متقی، نیک، عبادت گذار، پارسا اور مخلص تھے۔ آپ نے دین متین کی تاحیات خدمت انجام دی اور آخرکارراہِ خدا میں جان نثار کی۔
ایک مرتبہ حضرت داﺅد طائی رحمة اللہ علیہ آپ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ اے فرزند رسولﷺ ! مجھے کوئی نصیحت فرمائیے،میرادل سیاہ ہوگیا ہے۔ آپ نے فرمایا: اے اباسلیمان! تم تو اپنے زمانے کے مشہورعابد وزاہد ہو،تمہیں میری نصیحت کی حاجت ہی کیا؟ انہوں نے عرض کیا: اے فرزند رسولﷺ! آپ کو ساری مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور آپ پرسب کو نصیحت فرمانا واجب ہے۔ آپ نے فرمایا: ”میں ہمیشہ اس بات سے خائف رہتا ہوں کہ کل بروزقیامت میرے جد کریم علیہ التحیة والتسلیم اس پر میری گرفت نہ فرمائیں کہ تم نے کیوں میری اتباع کاحق ادا نہ کیا کیونکہ اتباع نبوی کاتعلق نہ نسب سے ہے اور نہ نسبت سے بلکہ پیروی کرنے سے ہی متعلق ہے۔“ یہ سن کر حضرت داﺅد طائی روکرعرض کرنے لگے: خداوند! جس شخص کا خمیر ہی خون خیرالرسل سے ہواور جس کی طبع نشوونما اپنے جدّکریم علیہ السلام کے برہان وحجت کے اصول سے ہے اور جس کی مادرِ معظمہ حضرت سیدنا بتول زہرارضی اللہ عنہا ہیں ، وہی جب بذات خود اس حیرانی وپریشانی میں ہیں توداﺅد تو کس گنتی وشمار میں ہے۔ تو زہد و ورع پر کیسے بھروسہ کر سکتا ہے؟ گویا کہ آپ کے فرمودات خوش فہمی میں زندگی گزارنے کی بجائے عمل اورخاکساری کاجذبہ فراہم کرتے ہیں۔
ایک دن آپ اپنے غلاموں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا: آﺅہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم میں سے جوبھی بخشا جائے وہ بروزقیامت دوسرے کی شفاعت کرے۔ تمام غلام عرض کرنے لگے اے فرزند رسولﷺ! آپ کو ہماری شفاعت کی کیا حاجت ہے؟ آپ کے جد کریم علیہ السلام توخود ساری مخلو ق کے شفیع ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: میں اپنے رب تعالیٰ سے شرمسار ہوں اور بروزقیامت اپنے جد اعلیٰ کے روبروکھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ کی یہ کیفیت عاجزی و انکساری پر مبنی تھی کیونکہ یہ صفت اوصاف کمال سے متعلق ہے اور اسی صفت میں خدا کے تمام مقبول بندے ہیں خواہ وہ انبیاءومرسلین ہوں یا اولیاء و اصفیائ۔ کیونکہ حضورﷺ کا ارشاد کا مفہوم ہے: اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے پر بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تواس کواس کے نفس کے عیوب دکھا دیتا ہے۔ جب بندہ بارگاہ صمدیت میں تواضع وبندگی سے سرجھکاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دونوں جہان میں سربلند رکھتا ہے۔
اہل حق کا برسوں سے یہ معمول رہا ہے کہ 22 رجب المرجب کو امام پاک کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے نیاز وفاتحہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عاشقان اہل بیت اے التماس ہے کہ اپنے سابقہ اور صحیح روش کوبرقرار رکھتے ہوئے امسال بھی امام سیدنا جعفرصادق رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں ایصال ثواب کریں، نیاز و فاتحہ و قرآن خوانی کا انعقاد کریں اور دوسروں کواس نیک کام کی ترغیب دیں۔
ٹی آر پی اور افواہوں سے دور،سچائی ، دیانت اور انصاف سے قریب ، مبنی بر حقیقت مضامین ،مقالات ، تعلیمی ، انقلابی ، معیاری اور تحقیقی و تفتیشی ویڈیوز کے لیے غیر جانبدار ادارے نوری اکیڈمی کے یوٹیوب چینل ، ویب سائٹس اور سماجی رابطے کی تمام سوشل سائٹس پر اپڈیٹ پانے کے لیے نوری اکیڈمی کو سبسکرائب ، فالو اور لائک کریں۔
..:: FOLLOW US ON ::..
![]() |
![]() |
![]() |
No comments:
Post a Comment