فتح مکہ کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع وانکساری اورعظیم تاریخی خطبہ
فتح مکہ : جس نے جزیرة العرب سے بت پرستی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا
از: عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)مالیگاﺅں
ماہ رمضان 8 ھ بمطابق جنوری 630ءتاریخ ِ نبوّت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان ہے اور سیرت ِ مقدسہ کا یہ وہ سنہرا باب ہے کہ جس کی آب وتاب سے ہرمومن کا قلب قیامت تک مسرّتوں کا آفتاب بنارہے گا کیوںکہ تاجدار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تاریخ سے آٹھ سال قبل انتہائی رنجیدگی کے عالم میں اپنے یارِ غارکو ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں مکہ سے ہجرت فرماکر اپنے وطن عزیز کو خیر باد کہہ دیا تھا اور مکہ سے نکلتے وقت خدا کے مقدس گھرخانہ کعبہ پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر یہ فرماتے ہوئے مدینہ روانہ ہوئے تھے کہ
” اے مکہ! خدا کی قسم ! تومیری نگاہ ِ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا“ ۔
لیکن آٹھ برس کے بعد یہی مسرت خیز تاریخ ہے کہ آپ نے ایک فاتحِ اعظم کی شان وشوکت کے ساتھ اسی شہر مکہ میں نزولِ اجلال فرمایا اور کعبة اللہ میں داخل ہوکر اپنے سجدوں کے جمال وجلال سے خدا کے مقدس گھر کی عظمت کو سرفراز فرمایا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہونے لگے تو آپ اپنی اونٹنی ”قصوائ“ پر سوار تھے۔ ایک سیاہ رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے ۔ بخاری میں ہے کہ آپ کے سرپر ”مغفر“ تھا۔ آپ کے ایک جانب حضرت ابوبکر صدیق اور دوسری جانب اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہما تھے اور آپ کے چاروں طرف جوش میں بھراہوا اور ہتھیاروں میں ڈوبا ہوا لشکر تھا جس کے درمیان کوکبہ نبوی تھا۔ اس شان وشوکت کو دیکھ کر ابوسفیان نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے عباس! تمہارا بھتیجہ توبادشاہ ہوگیا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تیراا برا ہو، اے ابوسفیان ! یہ بادشاہت نہیں ہے بلکہ یہ ”نبوّت“ ہے۔ اس شاہانہ جلوس کے جاہ وجلال کے باوجود شہنشاہ ِ رسالت کی شان ِ تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ سورہ فتح کی تلاوت فرماتے ہوئے اس طرح سرجھکائے ہوئے اونٹنی پربیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کا سراونٹنی کے پالان سے لگ لگ جاتاتھا ۔ آپ کی یہ کیفیت تواضع خداوند قدوس کا شکر ادا کرنے اور اس کی بارگاہِ عظمت میں اپنے عجز و نیاز مندی کا اظہار کرنے کے لیے تھی۔ (سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم،ص326)
تاجدار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی سرزمین میں قدم رکھتے ہی جو پہلا فرمان جاری فرمایا تھا اس کے لفظ لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں مار رہا ہیں، وہ اعلان یہ ہے:
”جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کے لیے امان ہے، جو شخص اپنا دروازہ بند کرے گا ا س کے لیے امان ہے، جو کعبہ میں داخل ہوجائے گا اس کے لیے امان ہے ۔ اس موقع پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ابوسفیان ایک فخرپسند آدمی ہے اس کے لیے کوئی ایسی امتیازی بات فرما دیجیے کہ اس کا سرفخر سے اونچا ہوجائے تو آپ نے فرمایا کہ :”جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لیے امان ہے۔“
فتح مکہ کے دوسرے دن بھی آپ نے ایک خطبہ دیا جس میں حرمِ کعبہ کے احکام وآداب کی تعلیم دی کہ حرم میں کسی کا خون بہانا، جانوروں کو مارنا، شکار کرنا، درخت کاٹنا، اِذخر کے سوا کوئی گھاس کاٹنا حرام ہے اور اللہ نے حرمت والی جگہ گھڑی بھر کے لیے رسول کو حرم میں جنگ کرنے کی اجازت دی، پھر قیامت تک کے لیے کسی کو حرم میں جنگ کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ نے اس کو حرم بنا دیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لے اس شہر میں خوں ریزی حلال کی گئی نہ میرے بعد قیامت تک کسی کے لیے حلال کی جائے گی۔ (بخاری، جلد 2،ص617 )
فتح مکہ پر ابن قیم نے اپنا اظہارخیال یوں کیا کہ
”یہ وہ فتح اعظم ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے دین کو ، اپنے رسول کو، اپنے لشکر کواور اپنے امانت دار گروہ کو عزت بخشی ۔ اپنے شہرکو اور اپنے گھر کو جسے دنیا والوں کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا ہے کفارومشرکین کے ہاتھوں سے چھٹکارا دلایا ۔ اس فتح سے آسمان والوں میں خوشی کی لہردوڑگئی اور اس کی عزت کی طنابیں جوزاءکے شانوں پر تن گئیں ۔ اس کی وجہ سے لوگ اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہوئے اور روئے زمین کا چہرہ روشنی اور چمک دمک سے جگمگااٹھا۔ فتح مکہ ایک عظیم فتح ہے جس نے بت پرستی کو جزیرة العرب سے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ۔ کیوںکہ عام قبائل عرب اس بات کے منتظر تھے کہ کفرواسلام کی جنگ میں فتح کس کی ہوتی ہے؟ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ حرم پر وہی مسلط ہوسکتا ہے جو حق پرہواور اس یقین میں پختگی نصف صدی پہلے اصحاب فیل ، ابرہہ اور اس کے ساتھیوں کے واقعہ سے آگئی تھی۔ یہ بھی اپنی جگہ سچائی لیے ہوئے ہے کہ صلح حدیبیہ اس فتح کا پیش خیمہ اورتمہید تھی۔“
No comments:
Post a Comment