کرونا ویکسین لینے والے تمام لوگ 2 سال میں مرجائیں گے : وائرل خبر کی سچائی
از: عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر) مالیگاﺅں
نوبل انعام یافتہ ،فرانسیسی ماہر قانون لیوک مونٹگنیئر سے منسوب وسیع پیمانے پر گردش کردہ ٹیکسٹ پیغام میں یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ کرونا وائرس سے حفاظتی ٹیکے لگانے والے تمام افراد دو سال کے اندر ہی مر جائیں گے اور ان کے بچنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسے سب لوگ اینٹی باڈی پر منحصر اضافے (ADE) سے مر جائیں گے۔ وائرل ہوئے میسیج میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ویکسین کے سبب ہی وائرس میں تبدیلیاں رونما ہو ئی ہیں۔
اس تعلق سے ایشوریہ ورما نے ریسرچ بیسڈ آرٹیکل ویب سائٹ ” دی کوئینٹ“ پر شائع کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ہم نے پایا ہے کہ مونٹگنیئر کے دعوے بے بنیاد اور سائنس کے خلاف ہیں۔ مزید یہ کہ لوگوں کے مرنے کے بارے میں ان کا بیان بالکل غلط ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والا پیغام مندرجہ ذیل دعوے کرتا ہیں۔
(1) حفاظتی ٹیکے لگانے والے تمام افراد دو سالوں میں ہی مر جائیں گے۔
(2) ویکسی نیشن کی وجہ سے وائرس میوٹیٹ یعنی اپنی شکل تبدیل کر رہا ہے۔
(3) ”اینٹی باڈی پر منحصر اضافہ “ (Antibody Dependent Enhancement) کے بارے میں وبائی امراض کے ماہرین خاموش ہیں۔
دعوی 1:
حفاظتی ٹیکے لگانے والوں کی دو سالوں میں موت
ایشوریا لکھتی ہے کہ ہمیں اوڈیسی (Odysee) نامی ویب سائٹ پر مونٹگنیئر کا مکمل انٹرویو ملا۔ فرانسیسی زبان میں دیا گیا یہ انٹرویو 11 منٹ پر مشتمل ہے ۔ ہم نے مکمل انٹرویو دیکھا مگر ہمیں ایسا کچھ بھی نہیں ملا جس میں مونٹگنیئر نے یہ کہا ہو کہ حفاظتی ٹیکے لگانے والے تمام افراد دو سالوں میں ہی مر جائیں گے۔یہ سچ ہے کہ مونٹگنیئرویکسین کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے لیکن وہ کسی بھی مقام پر یہ نہیں کہتا ہیں کہ ٹیکے لگائے جانے والے افراد کی موت ہوجائے گی۔ تاہم جب انٹرویو لینے والا ویکسین کے ”مضر اثرات“ کے بارے میں سوال پوچھتا ہے توجواب میں مونٹگنیئر کہتا ہے کہ اس کا علم دو سے تین سال بعد ہوگا۔ یعنی کہ دعویٰ نمبر ایک بے بنیاد اور ڈھکوسلا ہے ۔ یہ بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ فرانسیسی زبان سے ترجمہ کرنے والے کی غلطی ہو۔
دعوی 2:
ویکسی نیشن کی وجہ سے وائرس کا میوٹیشن
وائرس کے میوٹیشن یا تبدیلی کے متعلق سوال پوچھے جانے پر سابقہ نوبل انعام یافتہ مونٹگنیئر کا کہنا ہے کہ مختلف قسمیں ویکسین سے آتی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وائرس میں خود کو تبدیل کرنے کی زبردست صلاحیت ہوتی ہے۔ انھوں نے یہ کہا کہ یہ ایک ”ناقابل قبول غلطی“ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وائرس خود کو تبدیل کرتے ہیں اور یہ وائرس میں ہونے والی تبدیلیاں اور تغیرات وائرس کا نیا ورژن بناتے ہیں جسے ”میوٹیشن“ کہا جاتا ہے۔ واضح ہو کہ ویکسی نیشن شروع ہونے سے پہلے ہی کوویڈ کا نیا ورژن سامنے آگیا تھا۔ نیوز رپورٹس اور ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہندوستان میں کوویڈ کا نیا ورژن اکتوبر 2020ء ہی میں آچکا تھا یعنی ٹیکہ مہم شروع ہونے سے بہت پہلے ہی وائرس بذات خود اپنے آپ کو تبدیل کر چکا تھا۔ اس لیے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دعویٰ نمبر دو بھی مبہم اور غیر تصدیق شدہ یا غیر ثابت شدہ ہے۔
دعوی 3:
”ADE “کے بارے میں ماہرین کی خاموشی
مونٹگنیئر نے یہ بھی کہا کہ وبائی امراض کے ماہرین ”اینٹی باڈیز پر انحصار“ کے رجحان کے بارے میں جانتے ہیں اورفی الحال خاموش ہیں۔
ADE کیا ہے؟ اینٹی باڈیز پر منحصر اضافہ سے مراد یہ ہے کہ ایک وائرس خود کو اینٹی باڈی سے باندھتا ہے اور خلیوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے جو پہلے نہیں کرسکتا تھا۔ اینٹی باڈیز پیتھوجین کے لیے کیریئر کے طور پر کام کرتے ہیں اور میزبان کے خلیوں میں داخل ہونے کی صلاحیت کو بڑھاتے ہیں اور بیماری کو مزید خراب کرتی ہے۔ تاہم ، ماہرین نے کرونا وائرس کے ضمن میں ان دعووں کو مسترد کردیا ہے ۔ مسترد کرنے کی وجہ محض خیالی نہیں ہے بلکہ ریسرچ پیپر میں اس کی مکمل سائنسی تفصیل پیش کی گئی ، تحقیقی مقالے کو نوری اکیڈمی ویب سائٹ سے ڈاﺅن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔
اس بابت محققین اور شعبہ طب سے وابستہ افراد کی اور بھی کئی دلائل ہیں ، جنھیں مختصر سے مضمون میں قلمبند کرنا ممکن نہیں، غواص کے لیے تحقیق کا سمندر اُسے پکار رہا ہے۔
لیوک مونٹگنیئر کون ہے ؟
لیوک مونٹگنیئر، ایچ آئی وی کی دوائی کے دریافت کے سبب 2008ءمیں نوبل انعام یافتہ قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے مونٹگنیئر نے ماضی میں متعدد دعوے کیے ہیں جس کے لیے انھیں ہم پیشہ افراد اور ماہرین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ 2020ء کی ابتداء میں اس نے کہا تھا کہ کرونا وائرس انسان ساختہ ہے، یہ ایک سازش اور پروپیگنڈہ ہے۔ مگر اب تک وہ اپنے اس فرضی دعوے پر کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا ہے ۔ انھوں نے ایسے بیانات بھی دیے ہیں کہ فلیو(Flu) بھی کوویڈ مریضوں کو مار ڈالے گا مگر ماہرین صحت کے لیے یہ دعوی خام خیال ہے۔ ماضی میں مونٹگنیئر نے اینٹی ویکسیکرز کی بھی حمایت کی ہے اور یہ دعوی کیا ہے کہ ڈی این اے ”برقی مقناطیسی لہروں“ کو خارج کرتا ہے اور یہ کہ ڈی این اے کے مالیکیول ماضی میں ٹیلی پورٹ کرسکتے ہیں۔ غرضیکہ مونٹگنیئر کے دعوے نہ صرف غیر یقینی اور بے بنیاد ہوتے ہیں بلکہ اس کے پاس ایسے بیانات دینے کا ماضی کا خراب ریکارڈ بھی ہے۔
اس لیے ایسے موقع پر آنکھیں موند کر بھروسہ کرنے کی بجائے بذات خود تحقیق کا راستہ اختیار کریںیا اہل علم سے پوچھ لیں ، ویسے بھی اسلام ہم سے یہی کہتا ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو، وہ اہل علم سے دریافت کر لی جائے۔ ٹوئیٹر ہینڈل پر بھی اب دیگر سوشل ویب سائٹس کی طرح فیک آئی ڈیز اور فیک خبروں کی اشاعت کرنے والوں کا جم غفیر بڑھتا جا رہا ہے ۔آپ کو سوشل میڈیاپر کئی بے حوالہ، بے بنیاد اور من گھڑت تحریریںمل جائیں گی۔ پہلے کام اور اہلیت کی بنیاد پر نام ہوتا تھا، اب مخالفت اور جھوٹے پروپیگنڈوں کی بنیاد پر ہیرو بنا جا رہا ہے ،اس لیے خود کو ایسے پروپیگنڈوں کا شکار ہونے سے بچائیں۔ ایسی بات جس کے مستند ہونے کی تحقیق نہ ہو، گروپ یاانفرادی طور پر کسی کو بھیجنا، گناہ عظیم ہے۔انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی باتوں پر یقین کرے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس وبائی مرض سے محفوظ رکھے اور سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین
No comments:
Post a Comment