”کٹ پریکٹس“ ، گوشت خوری ، مستقبل کے عزائم ، فٹنس ٹپس اور ناک ،کان گلے کے انفیکشن سے بچنے کی احتیاطی تدابیر پر بیباک اظہار خیال
ڈاکٹر س ڈے کے موقع پر مالیگاوں کے معروف ای این ٹی سرجن ڈاکٹر عامر سے ریسرچ اسکالرعطاءالرحمن نوری کی خاص ملاقات
ڈاکٹر
عامر محمد مسلم کی پیدائش 11دسمبر 1985ءکومالیگاوں میں ہوئی۔آپ نے اے ٹی ٹی ہائی
اسکول سے دسویں اور بارہویںکے امتحانات امتیازی نمبرات سے کامیاب کرکے جواہر میڈیکل
کالج دھولیہ سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اورمومنہ آباد (امباجوگئی)سے
DLOکالج میں پوسٹ گریجویشن کیا۔ایمس (دہلی )سے DNBکاکورس کیا۔سال 2013ءتا 2014ءتک
مالیگاوں کے سامانیہ روگنالیہ کیندر (سول ہاسپٹل)میں ای این ٹی سرجن کے طور پر اپنی
خدمات انجام دیں۔اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دہلی روانہ ہوئے ۔2017ءمیں آپ کی
گھر واپسی ہوئی اور مارچ 2017ءسے نور ہاسپٹل میںبطور ای این ٹی سرجن اپنی خدمات
انجام دے رہے ہیں۔آپ ناک،کان اور گلے کے امراض کے ماہر ہیں۔ سوسائٹی کی فلاح
وبہبود ، نئی نسل کو حائل دشواریوںاور مریضوں کی ذہن سازی کی غرض سے راقم نے ڈاکٹر
عامر سے 6جون 2018ءکو ایک خاص انٹرویو میں کئی قسم کے سوالوں کے جوابات حاصل کیے
تھے،ڈاکٹرس ڈے اور استفادہ عام کی خاطر اس انٹرویو کونوری اکیڈمی کی آفیشیل ویب
سائٹ پر پبلش کیا جا رہاہے۔
سوال:آپ کواس منزل تک پہنچنے میں کن مشکلات کا سامنا
رہا اور آپ نے کس طرح پریشانیوں کا حل نکالا؟
جواب:کوئی بھی شعبہ دشواریوں سے خالی نہیں ہے ،تنگ
نظری،بھید بھاﺅ،نظریاتی اختلافات ،معاشی بحران،گھریلو پریشراورذہنی
تناﺅ جیسی دشواریاں تو
ہر طالب علم کی زندگی کا لازمی جز ہے ۔مگر وقت کی پابندی،منصوبہ بندی،کام میں
مہارت،راست بازی اورایمانداری جیسے اوصاف کی بنیاد پر ان مشکلات کو حل کیا جا سکتا
ہے۔
سوال:کیا ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والا بچہ ایم
بی بی ایس جیسا مہنگا کورس کرسکتاہے ؟
جواب:جی ہاں!ضرور کر سکتا ہے،بشرطیکہ وہ نیٹ امتحان میں
اعلیٰ نمبرات حاصل کریں،مطالعہ اور محنت سے گورنمنٹ کوٹا میں سیٹ حاصل کریں،ٹارگیٹ
کے مطابق اسٹڈی پر فوکس کریں،شیڈول کاسٹ میں ہونے کے باوجود ہمیشہ نگاہ اوپن کیٹیگری
کے کٹ آف پررکھیں تاکہ بوقت ِداخلہ کسی قسم کی دشواری نہ ہو،غیر ضروری اخراجات
،مصروفیات اور مشغولیات سے پرہیز کریں۔
سوال:شعبہ طب میں داخلے کے وقت مقاصد خدمت خلق کے
ہوتے ہیں مگر پریکٹیکل لائف میں مطمح نظر تبدیل ہو جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ کیا
ہے؟
جواب:دیکھیے نوری صاحب!خدمت خلق تو ہوتی ہی رہتی
ہے،اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔مگر یہ ایک پیشہ ہے ہر مریض کے ساتھ فی سبیل اللہ
کا معاملہ نہیں کیا جاسکتا ہے ،ہاں!جہاں ضرورت ہوتی ہے ہر ڈاکٹر اپنے تئیں خدمت کا
فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔مریض کی جانچ کے لیے لگنے والی مشینوں کی قیمت لاکھوں میں
ہوتی ہیں، ایسے میں ڈاکٹر چیک اَپ چارج تو مریض ہی سے لے گا۔مریض کی بھی یہی خواہش
ہوتی ہے کہ اس کا بہتر علاج ہواور ڈاکٹر کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ صحیح مرض کی تشخیص
ہو، ایسے میں کئی ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں جواکثر کافی مہنگے ہوتے ہیں،ڈاکٹر کی جانب
سے جو کچھ کیا جاتا ہے وہ مریض کے حق میں بہتر ہی ہوتا ہے مگر زیادہ خرچ آنے کے
سبب کچھ لوگوں کی یہ سوچ بن چکی ہے کہ ڈاکٹرس نے اسے بزنس بنا لیا ہے ۔
سوال:ڈاکٹرس پر لوگوں کا اعتماد کیوںکم ہوا ہے اور اس خلیج
کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے ؟
جواب:میں اپنی بات بتا تاہوں،دہلی میں میری چیک اَپ فیس
تین ہزار روپے تھی مگر یہاں تین سو روپے،جس آپریشن کا دہلی اور ممبئی میں پانچ
لاکھ کا بجٹ دیا جاتا ہے وہی آپریشن یہاں دیڑھ دو لاکھ میں ہوجاتاہے ،باوجود اس کہ
مریض فیس ادا کرنے میں پس وپیش کرتا ہے ،اداروں کے ذمہ داران ،سیاسی لیڈران اور مریض
کے رشتہ دار واحباب ڈاکٹر پر مختلف قسم کا پریشر قائم کرتے ہیں،جب کہ ایڈمیٹ کرنے
سے پہلے ہی سرپرستوں کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کیا جا چکا ہوتا ہے،دونوں کی رضا
مندی سے علاج کو آگے بڑھایا جاتا ہے مگر ڈسچارج کے وقت بات بحث تک پہنچ جاتی ہے،اس
سبب سے ڈاکٹر اور مریض کے درمیان خلاءپیدا ہونے لگتی ہے ،بعض صورتوں میں جانچ کی
ضرورت نہ ہوتو بل کم بنتا ہے ،مگر اس صورت حال میں مریض سوچتا ہے کہ اتنا کم بل
،دوائیں اتنی سستی،میری تشخیص درست ہوئی ہے یا نہیں؟یعنی کچھ لوگوں کی نااہلی کے
سبب ہر ڈاکٹر کو منفی نگاہوں سے دیکھاجاتا ہے، مریضوں کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر پر
بھروسہ کریں اور ڈاکٹر کو چاہیے کہ وہ اس بھروسے کو قائم رکھیں۔
سوال:کٹ پریکٹس کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ؟
جواب:کٹ پریکٹس ہی کے سبب مریضوں کا بھروسہ ڈاکٹر س
سے کم ہوتا جا رہاہے،کٹ پریکٹس کی وجہ سے مریضوں کے علاج پر منفی اثر پڑتا ہے
،علاج میں تاخیر بھی ہوتی ہے اور اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ڈاکٹر س کو چاہیے کہ
ڈگری لیتے ہوئے اپنے عہد کو یاد کریں اور برائی سے اجتناب کریں،ایکس رے،سونوگرافی،ریفرنس
اور لیب ڈپارٹمنٹ سے فی صد لینا تو بڑی برائی ہے ڈاکٹر س کو چاہیے کہ وہ اپنی کیبن
یا دواخانے میں کسی دوسرے ڈاکٹر کو ریفر لیٹر بھی نہ رکھیں،کمپنیوں کے گفٹ آئٹمس
نہ لیں،ان کے دیے ہوئے پیکج سے سیروتفریح پر نہ جائیں،کسی بھی کمپنی کے ”لوگو“یا ایڈورٹائزمنٹ
بورڈنہ لگائیں،کلینک چھوٹا بھی ہوتو اصول وضوابط کے مطابق ہو۔اگر کمپنی خود ہو کر
بغیرکسی معاہدے کے کچھ دینا چاہتی ہے تو گفٹس لینے کی بجائے اسٹڈی مٹیریل حاصل
کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کریں۔اور بنیادی بات یہ ہے کہ مکمل ایمانداری کا مظاہرہ
کریں،تب ہی کہیں جا کر اس برائی کا خاتمہ ہوگا اور ڈاکٹرس اور مریضوںکے درمیان
حائل خلیج کا خاتمہ بھی ہوگا۔
سوال:ناک ،کان اور گلے کے انفیکشن سے بچنے کی احتیاطی
تدابیر کیا ہیں؟
جواب:”اِیئر بَڈ“ کا استعمال نہ کریں،لکڑی وغیرہ سے
کان صاف نہ کریں،چھینکتے وقت رومال رکھیںاورصاف صفائی کا خاص خیال رکھیں۔
سوال:فٹنس کے لیے ٹپس بتائیں؟
جواب:روزآنہ ورزش کریں،شیڈول کے مطابق زندگی گذاریں،وقت
پر کھائیں،وقت پر آرام کریں،گوشت کم کھائیں۔گوشت خوری کی وجہ سے جو بیماریاں امیروں
میں ہوتی ہیں وہیں بیماریاں مالیگاﺅں کے غریبوں میں ہیں۔
سوال:مستقبل کے کیا عزائم ہیں؟
جواب:ملٹی اسپیشلٹی ہاسپٹل قائم کرنا،طب کے معروف
اداروں کی ہدایات کے مطابق ہاسپٹل کی تعمیر، تشخیص امراض پر مکمل توجہ،اعلیٰ تعلیم
یافتہ اور تجربہ کارڈاکٹرس کی خدمات حاصل کرنااورخاص طور پر قلب کے امراض کا
علاج،اعصابی بیماریوں کا علاج اور لیڈیز آئی سی یو کا قیام مستقبل کے منصوبوں میں
شامل ہیں۔میری یہ کوشش ہوگی کہ شہر کے مریض کو بغرض علاج دوسرے شہروں کا رُخ نہ
کرنا پڑے۔
سوال:قارئین کے لیے کوئی پیغام ؟
جواب:ڈاکٹرپر بھروسہ کریں۔
No comments:
Post a Comment