حضرت الشیخ عبدالحمید محمد سالم القادری کی حیات کے چند درخشاں پہلو
حضرت الشیخ عبدالحمید محمد سالم القادری کی رحلت ملت اسلامیہ ہند کا ناقابل تلافی علمی وروحانی نقصان
از: عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)مالیگاﺅں
حضرت الشیخ مولانا عبدالحمید محمد سالم القادری عثمانی بدایونی علیہ الرحمہ (زیب سجادہ آستانہ عالیہ قادریہ، بدایوں ) اپنے اسلاف کی طرح نہایت باحیا، خلیق اورملنسارتھے۔ آپ حضرت عاشق الرسول حضرت مولانا عبدالقدیر بدایونی قدس سرہ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے اور جانشین، خانقاہ قادریہ کے صاحب سجادہ، مدرسہ قادریہ کے سرپرست، لاکھوں قادری مجیدی وابستگان کی عقیدت ومحبت کا مرکز اور خانوادہ قادریہ عثمانیہ کے سربراہ تھے ۔ آپ اپنے بزرگوں کی روحانی وراثتوں کے امین ووَارث تھے ۔ پابندیِ شریعت، ذوقِ طریقت، عقیدے میں تصلب اور سوزوگداز اپنے بزرگوں سے ورثے میں پایا تھا۔ دور اندیشی، معاملہ فہمی، کشادہ قلبی، اعلیٰ ظرفی، توازن واعتدال، صبروتحمل اور عفوودَرگذرآپ کے ذاتی اوصاف تھے۔ قوم وملت کی فلاح وترقی، مسلک اہلسنّت کی نشرواشاعت، مشرب قادریت کا فروغ اور احباب سلسلہ کی تعلیم وتربیت آپ کی زندگی کا مشن خاص تھا۔ 2010ء میں آپ کی سجادگی کو پچاس سال مکمل ہو ئے تھے۔ آپ کی دعوتی، تبلیغی اور اصلاحی خدمات کی تاریخ نصف صدی پر محیط ہے۔
حضرت الشیخ عبدالحمید محمد سالم القادری کی ولادت باسعادت 26 شعبان
المعظم 1358ھ / اکتوبر1939ء میں حیدرآباد دکن میں ہوئی۔ آپ نے محض آٹھ سال
کی عمر میں حافظ عبدالوحید قادری مقتدری سے قرآن کریم حفظ کیا ۔ اپنے آبائی
مدرسہ قادریہ میں مفتی ابراہیم فریدی سمستی پوری اور مفتی اقبال حسن قادری
سے علم کی تحصیل کی۔ بعض کتابیں اپنے والد گرامی حضرت عاشق الرسول شاہ
عبدالقدیر قادری (مفتی اعظم حیدرآباد سے) پڑھیں۔ آپ اپنے والد محترم کے دست
حق پر بیعت ہوئے اور 1377ھ میں عرس قادری کے مبارک موقع پر خلافت سے نوازے
گئے۔ 6 شوال المکرم 1379ھ / 1960ء میں حضرت عاشق الرسول کے فاتحہ سویم کے
دن حضرت کی وصیت واعلان کے مطابق خانقاہ قادریہ کی مسند سجادگی پر متمکن
ہوئے۔ اس وقت سے اب تک آپ اپنے اسلاف کے مسلک ومنہاج پر مضبوطی سے قائم
رہتے ہوئے رشدوہدایت، اصلاح وارشاد، وابستگان سلسلہ کی دینی اور روحانی
تربیت اور سلسلہ قادریہ کے فروغ کے لیے محنت کررہے تھے۔
آپ نے تصوف سے متعلق ایک مصری کتاب کا ترجمہ ”محبت، برکت اور زیارت“ کے نام سے کیاجو پہلی مرتبہ ادارہ مظہر حق بدایوں سے اور دوبارہ تاج الفحول اکیڈمی سے شائع ہواتھا ۔ تین مجموعہ نعت ومناقب نوائے سروش (1992ء)، معراج تخیل (1998ء) اور مدینے میں (2008ء) تاج الفحول اکیڈمی شائع کرچکی ہے۔ ایک مجموعہ نعت ومناقب زیر ترتیب ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے حضرت کی سرپرستی میں خانقاہ ِ بدایوں کے اکابر کی کتابیں جدید انداز میں شائع کی جارہی تھی ۔
حضرت الشیخ عبدالحمید محمد سالم القادری کی شخصیت شعروسخن کی فصل میں بدر کامل بن کرطلوع ہوتی ہے۔ آپ جہاں زندگی کے مختلف پہلو میں فقیدالمثال، نادر روز گار اور نازش باغ و بہار ہیں وہیں شعر و سخن کے آئینے میں بھی دیکھیے تو شعر کی زلف برہم سنوارتے اور سخن کے عارض پرغازہ ملتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی قندیل شعورو آگہی سے ظلمات فکر و نظر کے دبیز پردہ کو چاک کیا اور گم گشتگان راہ کو نشان منزل اور شمع ہدایت عطا کی۔ ہر بڑے مفکر کی طرح آپ نے بھی اپنے اصول اور ایقان کی روشنی میں ایک فصیح و بلیغ و جدید کلام دنیا کو پیش کیا ہے اور اپنی بانکی طبیعت سے گلشن شعرو سخن میں جذبہ محبت اور ولولہ عقیدت کا ایسا کشادہ منفرد اور پر شکوہ تاج محل تعمیر کیا ہے جس کی خوبصورتی، فنکاری، نئے نئے نقش و نگار اور انوکھے گل بوٹے دیکھ کر لوگ غرق حیرت ہیں۔ آپ کی شاعری میں طلاقت لسانی، سلاست زبانی، طرز ادا کی دل آویزی، اسلوب بیان کی دلکشی اور مضامین کی روانی و شگفتگی بدرجہ اتم موجود ہے ۔
آپ کے عہد سجادگی میں خانقاہ قادریہ نے تعلیمی، تبلیغی،اشاعتی اور تعمیری میدانوں میں نمایاں ترقی کی۔ کتب خانہ قادریہ کی جدید کاری، مدرسہ قادریہ کی نشاة ثانیہ اور خانقاہ قادریہ میں جدید عمارتوں کی تعمیر یہ سب ایسی خدمات ہیں جو خانقاہ قادریہ کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی۔ مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ”نقویہ اسلامیہ گرلز انٹر کالج بدایوں“ قائم کیا گیا ہے جو آج بدایوں ضلع کے چند معیاری کالجوں میں سے ایک ہے۔ بدایوں کی مرکزی عمارت ”گھنٹہ گھر“ جو مولانا عبدالماجد بدایونی کی یادگار ہے اس میں عوام کے لیے ”مولانا عبدالماجد بدایونی پبلک لائبریری“ کا قیام کیا گیا، اکابر بدایوں کی تصنیفات کے لیے پہلے ”ادارہ مظہر حق“ قائم کیا گیا تھا جس نے حتی الامکان اشاعتی خدمات انجام دیں، پھر اس کا نام بدل کر ”تاج الفحول اکیڈمی “ کردیا گیا جو بحمدہ تعالیٰ اشاعتی میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہے۔ عصری تعلیم سے نونہالان قوم کو آراستہ کرنے کے لیے ”الازہرانسٹی ٹیوٹ“ کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں بی سے اے، بی بی اے اور ایم بی اے کی کلاسیس جاری ہیں۔
2017ء میں تاجداراہلسنّت حضرت الشیخ عبدالحمید سالم القادری صاحب اپنے صاحبزادے حضرت علامہ محمد عزام میاں قادری، خلیفہ حضرت حافظ عبدالقیوم قادری اور شاگرد شہید بغداد علامہ خالد احمد قادری صاحبان کی شہر مالیگاوں میں تبلیغی دورے پر تشریف آوری ہوئی تھی۔ علامہ حافظ آصف قادری ، مفتی عارف اشرفی صاحب اور حافظ غفران اشرفی کی معیت میں تاجدار اہلسنت سے ملاقات اور دست بوسی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ حضرت کی بارگاہ میں راقم نے اپنی مطبوعات پیش کیں جنہیں دیکھ کر حضرت نے مسرت کا اظہار فرمایا تھا اور دعائیہ کلمات سے بھی نوازاتھا۔ گذشتہ کئی سالوں سے ”عصر حاضر کے چند ممتاز علماے ہند“ نامی کتاب پر کام کر رہا ہوں ۔ اس سلسلے میں حضرت سالم میاں کا ریکارڈیڈ انٹرویو بھی ہوا اور اس کتاب میں موجود حضرت کی شخصیت کے باب کو حضرت نے حرف با حرف پڑھا اور اصلاح و ترمیم سے نوازا تھا ۔ پندرہ شخصیات کی حیات و خدمات پر مشتمل اس کتاب کو اب تک گیارہ شخصیات بذات خود نظر ثانی کر چکی ہیں ۔ علماے ہند کی اس کرم نوازی کے سبب اس کتاب کو اعتبار و سند کا درجہ حاصل ہوتا جا رہاہے ۔ الحمداللہ ۔اسی کتاب سے چند سطریں مضمون کی شکل میں آپ کی خدمت میں پیش کیا ہوں۔ اُمید قوی ہے کہ عنقریب اس کتاب کی اشاعت عمل میں آئے گی ۔ ان شآءاللہ
9 مئی بروز اتوار 2021ء کی صبح مولانا شاہ عبدالحمید سالم القادری صاحب اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ آپ کی رحلت ملت اسلامیہ ہند کے لیے ایک ناقابل تلافی علمی و روحانی نقصان ہے۔ اللہ کریم آپ کے درجات بلند فرمائے ، جملہ خانوادے اور مردین و متوسلین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین
٭حوالہ جات:
(1) اکمل التاریخ، مولانامحمد یعقوب حسین ضیاءالقادری بدایونی،ترتیب جدید: مولانا اُسید الحق قادری بدایونی،تاج الفحول اکیڈمی بدایوں، جولائی 2013ء(2) روبرو،حصہ اوّل،ص142تا149،خوشتر نورانی، ادارہ¿ فکراسلامی دہلی،نومبر2010ئ
(3) جام نور دہلی،فروری2010ء
No comments:
Post a Comment