حیات الموات فی بیان
سماع الاموات
پس منظر :
یہ
کتاب کب اور کیوں لکھی گئی اس کی مکمل تفصیل حضرت علامہ محمد عبدالحکیم خان اختر
مجددی، مظہری شاہجہانپوری، دار المصنفین ( لاہور ) کی زبانی سنیے
.........
لکھتے
ہیں ...... ،
اعلیٰ
حضرت علیہ الرحمہ کے زمانے میں ایک مفتی صاحب سے سماع ِ موتیٰ کے بارے میں پوچھا
گیا، موصوف نے اپنے فتوے میں اہل قبور سے خطاب کو شرک یا کم ازکم شبہہ و شائبہ شرک
قرار دیا ، نیز تصریح کردی کہ زائر اور مقبور کے درمیان چونکہ مٹی کا ڈھیر حائل ہے
اس لیے مقبور سے کلام و خطاب کرنا اسے سمیع و بصیر علی الاطلاق ماننا ہے .....
مستفتی
نے موصوف کا یہ خلاف جمہور اور مہری دستخطی فتویٰ
مجدد
ماتہ حاضرہ امام احمد رضا خاں بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ارسال کرتے ہوئے
استفتاء پیش کیا کہ سماع ِ موتیٰ
کے
بارے میں جمہور کا مذہب مدلّل بیان فرمایا جائے اور مرسلہ فتوے کی حقیقت بھی واضح
فرمادی جائے، امام اہل سنت نے احقاق ِ حق اور ابطال ِ باطل کی خاطر اپنے قلم کو
میدان ِ تحقیق میں ایسا اذن خرام دیا کہ ماہ رجب 1305 سن ہجری /1886 کے ابتدائی
چند ایام میں حیات الموات فی بیان سماع الاموات کے
تاریخی
نام سے ایسا محققانہ رسالہ تیار ہو گیا جس نے دشمنان اولیاء کے تمام مزعومہ دلائل
کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، آپ نے ایسے ساڑھے چار سو دلائل قائم فرمائے جن میں سے کسی
ایک دلیل کو غلط یا دعویٰ سے لاتعلق ثابت نہیں کیا جاسکا بفضلہ تعالیٰ چورانوے
/94سال گزر گئے ( اب تو 124 برس ہوگئے) لیکن کسی مخالف سے اس کا جواب نہیں لکھا
گیا اور نہ کبھی لکھا جا سکے گا کیونکہ
الحق
یعلواولا یعلیٰ
.............................................
کتاب کا مختصر تعارف :
امام
احمد رضا نے تینتس /33 برس کی عمر شریف میں 250 صفحات پر مشتمل یہ تاریخی کتاب
تصنیف فرمائی ، کتاب کے اختتام پر خود لکھتے ہیں کہ......... ،
الحمد
للہ آج اس رسالہ سے تصانیف فقیر کا عدد ایک سو اسّی /180 ہوا، اکرم الاکرمین جل
جلالہ قبول فرمائے اور فقیر حقیر و اہلسنّت کے لیے دارین میں حجت نجات بنائے ،
آمین
واضح
رہے کہ محققین کی تحقیق کے مطابق امام احمد رضا کی تصانیف، کتب ورسائل کی کل تعداد
ایک ہزار کے قریب پہنچتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کے بعد تقریباً
آٹھ سو کتب ورسائل امام احمد رضا نے وصال سے قبل تحریر فرمائے ........ ،
زیر
بحث کتاب میں آپ نے تین ابواب قائم کیے ،
ابتدا
ء میں دو صفحات پر مشتمل اس فتوے کو بھی کتاب میں شامل کیا گیا ہے جس میں اہل قبور
سے خطاب کو شرک یا شائبہ ء شرک قرار دیا گیا تھا ،
اول
مقصد کے تحت آپ نے مذکورہ فتوے کی شرعی گرفت کرتے ہوئے اس پر پچیس سوالات قائم کیے
، اور اس کے بعد اسی فتوے سے دس مثالیں اس ثبوت کے طور پر پیش کردیں کہ یہ فتویٰ
منکرین کے لیے بھی سند نہیں بن سکتا ...... ،
مقصد
دوم میں 60 احادیث سے اس بات کا ثبوت پیش کیا کہ روح فنا نہیں ہوتی اور اس کے
افعال و ادراکات جیسے دیکھنا، سننا، بولنا، سمجھنا آنا جانا، چلنا پھرنا سب بدستور
رہتے ہیں بلکہ اس کی قوتیں بعد مرگ اور صاف وتیز ہوجاتی ہیں ، حالت حیات میں جو
کام ان آلات خاکی یعنی آنکھ، کان، ہاتھ پاؤں زبان سے لیتے تھے انتقال کے بعد ان کے
بغیر کرتی ہے ......
مقصد
سوم میں علمائے اسلام کے پونے چار سو اقوال کو حوالہ جات کے ساتھ جمع فرمادیا
...... ،
دلائل
کی یہ کثرت امام احمد رضا کے اعلیٰ و ارفع علمی مقام کو ظاہر کرتی ہے ..........
،
.............................................
اب
آئیے
سلسلہ
وار احادیث نبویہ کو پڑھتے جائیے ،
اور
اپنے دل کو ایمان و یقین کے نور سے روشن و منور اور تاباں کرتے
رہیے............
بہتر
ہوگا کہ
اپنے
گھروں میں بھی اسے سنائیں اور احباب کو بھی پڑھنے کی ترغیب دیں .........
،
اسی
مقصد کے لیے ان احادیث کریمہ کو یہاں جمع کیا گیا ہے ...
اس
قلمی خدمت میں رضوی سلیم شہزاد ، غلام فرید اور امتیاز خورشید جیسے احباب کا تعاؤن
بڑی اہمیت کا حامل رہا، مولانا عبیداللہ خاں رضوی مصباحی صاحب ( چمپاروی ) نے بھی
اسے دیکھا اور حوصلہ افزائی کی ،
اللہ
تعالٰی ان تمام حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے
اور
اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے صدقے اس خدمت کو شرف قبولیت
سے نوازے ...........
آمین
شکیل احمد سبحانی ,10 جون 2020
.............................................
حدیث 1 :
امام
اجل عبداللہ بن مبارک و ابوبکر بن ابی شیبہ عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ
تعالیٰ عنہما سے موقوفا اور امام الکل احمد بن حنبل اپنی مسند اور طبرانی معجم
کبیر اور حاکم صحیح مستدرک اور ابو نعیم حلیہ میں بسند صحیح حضور پر نور سید عالم
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مرفرعا راوی والموقوف ابسط لفظا واتم معنی وانتم
تعلم انہ فی الباب کمثل المرفوع و ھذا الفظاالامام ابن المبارک ....
بے
شک دنیا کافر کی جنت اور مسلمان کی زندان ہے اور ایمان والے کی جب جان نکلتی ہے تو
اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے کوئی قید خانے میں تھا اب اس سے نکال دیا گیا کہ زمین
میں گشت کرتا اور بافراغت چلتا پھرتا ہے،
دنیا
مسلمان کا قید خانہ اور کافر کی بہشت ہے، جب مسلمان مرتا ہے اس کی راہ کھول دی
جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے
حدیث 2 :
سیدی
محمد بن علی ترمذی انس بن مالک ( رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے راوی حضور سید عالم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ،
دنیا
سے مسلمان کا جانا ایسا ہے جیسے بچے کا ماں کے پیٹ سے نکلنا، اس دم گھٹنے اور
اندھیری کی جگہ سے اس فضائے وسیع دنیا میں آنا ،
حدیث 3 :
صحیح
بخاری و صحیح مسلم میں ابو سعید خذری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی
سید
عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
جب
جنازہ رکھا جاتا ہے اور مرد اسے اپنی گردنوں پر اٹھاتے ہیں اگر نیک ہوتا ہے تو
کہتا ہے مجھے آگے بڑھاؤ اور بد ہوتا ہے تو کہتا ہے، ہائے خرابی اس کی کہاں لیے
جاتے ہو، ہر شئے اس کی آواز سنتی ہے مگر آدمی کہ وہ سنے تو بے ہوش ہو جائے
.....
حدیث 4 :
ابوداؤد
طیالسی نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مرفوعاً روایت کیا، اذ وضع البیت علی
سریرہ، الحدیث مانند حیث ابو سعید رضی اللہ عنہ
حدیث 5 :
امام
احمد ابن ابی الدنیا و طبرانی و مروزی و ابن مندہ ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ سے
راوی
سید
عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
بے
شک مردہ پہچانتا ہے اسے جو اسے غسل دے اور جو اٹھائے اور جو کفن پہنائے اور جو قبر
میں اتارے .....
حدیث 6 :
ابو
الحسن بن البراء کتاب الروضہ میں بسند خود عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے
راوی
سرور
عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ،
ہر
مردہ اپنے نہلانے والے کو پہچانتا اور اٹھانے والے کو قسمیں دیتا ہے اگر اسے آسائش
اور آرام کے باغ کا مژدہ ملا تو قسم دیتا ہے، مجھے جلد لے چل اور اگر آب گرم کی
مہمانی اور بھڑکتی آگ میں جانے کی خبر ملتی ہے، قسم دیتا ہے مجھے روک رکھ ،
حدیث 7 :
ابن
ابی الدنیا، کتاب القبور میں حضرت امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
راوی،
سید
عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ....
جب
مردے کو جنازے پر رکھ کر تین قدم لے چلتے ہیں ایک کلام کرتا ہے جسے سب سنتے ہیں،
جنہیں خدا چاہے سوائے جن و انس کے، کہتا ہے ائے بھائیو! ائے نعش اٹھانے والو!
تمہیں دنیا فریب نہ دے، جیسا مجھے دیا اور تم سے نہ کھیلے جیسا مجھ سے کھیلی ،
اپنا ترکہ تو میں وارثوں کے لیے چھوڑ چلا اور بدلہ لینے والا قیامت میں مجھ سے
جھگڑے گا اور حساب لے گا، تم میرے ساتھ چل رہے ہو اور اکیلا چھوڑ آؤگے
........
حدیث 8 :
ابن
مندہ راوی حبان بن ابی حیلہ نے فرمایا ........ ،
مجھے
حدیث پہنچی کہ
سید
عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہید کے لیے ایک جسم نہایت خوبصورت یعنی اجسام
مثالیہ سے اترتا ہے اور اس کی روح کو کہتے ہیں اس میں داخل ہو پس وہ اپنے پہلے بدن
کو دیکھتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں اور کلام کرتا اور اپنے ذہن میں
سمجھتا ہے کہ لوگ اس کی باتیں سن رہے ہیں اور آپ جو انہیں دیکھتا ہے تو یہ گمان
کرتا ہے کہ لوگ بھی اسے دیکھ رہے ہیں، یہاں تک کے حورعین سے اس کی بیبیاں آکر اسے
لے جاتی ہیں،
حدیث 9 :
ابن
ابی الدنیا و بہیقی سعید بن مسیب سے راوی .....
سلمان
فارسی و عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنھما ملے، ایک صاحب نے دوسرے سے فرمایا
اگر آپ مجھ سے پہلے انتقال کریں گے تو مجھے خبر دیں کہ وہاں کیا پیش آیا؟ دوسرے
صاحب نے پوچھا کیا زندے اور مردے بھی آپس میں ملتے ہیں، فرمایا ہاں، مسلمانوں کی
روحیں تو جنت میں ہوتی ہیں اور انہیں اختیار ہوتا ہے جہاں چاہیں جائیں،
مغیرہ
بن عبدالرحمن کی روایت میں تصریح آئی کہ یہ ارشاد فرمانے والے حضرت سلمان فارسی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ....
سعید
بن منصور اپنے سنن اور ابن جریر طبری کتاب الادب میں ان سے راوی یعنی سلمان فارسی
نے عبداللہ بن سلام سے فرمایا ....
تم
مجھ سے پہلے مرو تو مجھے خبر دینا کہ وہاں کیا پیش آیا اور اگر میں تم سے پہلے
مروں تو میں تمہیں خبر دوں گا .....
حدیث 10 :
ابن
ابی شیبہ استاذ بخاری ومسلم اپنی مصنف میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے
راوی کہ انہوں نے فرمایا ،
مسلمان
کی روح نہیں نکلتی جب تک بشارت نہ دیکھ لے، پھر جب نکل چکتی ہے تو ایسی آواز سے
جسے انس وجن کے سوا گھر کا ہر چھوٹا بڑا جانور سنتا ہے، مجھے جلد لے چلو ارحم
الراحمین کی طرف، پھر جب جنازے پر رکھتے ہیں کہتی ہے کتنی دیر لگا رہے ہو چلنے میں
......
حدیث 11 :
امام
احمد کتاب الزہد میں ام الدرداء رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی کہ فرماتیں
،
بے
شک مردہ جب چار پائی پر رکھا جاتا ہے پکارتا ہے ائے گھر والو! ائے ہمسایو! ائے
جنازہ اٹھانے والو! دیکھو دنیا تمہیں دھوکا نہ دے جیسا مجھے دیا ،
(
ام الدرداء یہ دو خاتونوں کی کنیت ہے، دونوں حضرات الدرداء صحابی رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کی بیبیاں ہیں، پہلی کبریٰ کہ صحابیہ ہیں خیرہ نام، دوسری صغریٰ تابعیہ،
ثقہ فقیہہ، مجتہدہ، رواٰۃ صحاح ستہ سے ہجمیہ نام رضی اللہ تعالیٰ عنھما )
حدیث 12 :
ابن
ابی الدنیا امام مجاہد رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے راوی،
جب
مردہ مرتا ہے، ایک فرشتہ اس کی روح ہاتھ میں لیے رہتا ہے، نہلاتے اٹھاتے وقت جو
کچھ ہوتا ہے وہ سب دیکھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ فرشتہ اسے قبر تک پہنچا دیتا
ہے،
(
امام مجاہد تابعی جلیل الشان، امام مجتہد، مفسّر، ثقہ علما مکہ معظمہ اجلّہ تلامذہ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہھما سے سب صحاح میں ان سے روایت ہے )
حدیث 13 :
دہی
عمرو بن دینار رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے راوی،
ہر
مردہ جانتا ہے کہ اس کے بعد اس کے گھر والوں میں کیا ہو رہا ہے، لوگ اسے نہلاتے
ہیں، کفناتے ہیں اور وہ انہیں دیکھتا جاتا ہے ،
(
دہی عمرو بن دینار یہ بھی تابعی جلیل، ثقہ ثبت ہیں علمائے مکہ معظمہ و رجال صحاح
ستہ سے )
حدیث 14 :
ابو
نعیم انہیں سے راوی
ہر
مردے کی روح ایک فرشتے کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ اپنے بدن کو دیکھتی جاتی ہے کیوں کر
غسل دیتے ہیں؟ کس طرح کفن پہناتے ہیں؟ کیسے لے کر چلتے ہیں اور وہ جنازے پر ہوتا
ہے کہ فرشتہ اس سے کہتا ہے سن تیرے حق میں بھلا یا برا کیا کہتے؟
حدیث 15 :
امام
ابوبکر عبداللہ بن محمد بن عبید ابن ابی الدنیا کہ امام ابن ماجہ صاحب سنن کے
استاذ ہیں، امام اجل بکر بن عبداللہ مزنی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے راوی کہ انہوں
نے فرمایا،
مجھے
حدیث پہنچی کہ جو شخص مرتا ہے، اس کی روح ملک الموت کے ہاتھ میں ہوتی ہے، لوگ اسے
غسل و کفن دیتے ہیں اور وہ دیکھتا ہے کہ اس کے گھر والے کیا کرتے ہیں، ان سے بول
نہیں سکتا کہ انہیں شور و فریاد سے منع کرے .....
(
اقول :اس نہ بولنے کی تحقیق زیر حدیث 35 مذکور ہوگی ان شاء اللہ تعالٰی )
حدیث 16 :
یہی
امام سفیان علیہ الرحمتہ المنان سے راوی .....
بیشک
مردہ ہر چیز کو پہچانتا ہے، یہاں تک کہ اپنے نہلانے والے کو خدا کی قسم دیتا ہے کہ
آسانی سے نہلانا اور یہ بھی فرمایا کہ اس سے جنازے پر کہا جاتا ہے کہ سن لوگ تیرے
بارہ میں کیا کہتے ہیں
(
امام سفیان یہ تبع تابعین و مجتہدان کوفہ و رجال صحاح ستہ سے ہیں امام ثقہ حجت،
محدث مجتہد و عارف باللہ)
حدیث 17 :
یہی
امام عبدالرحمٰن بن ابی لیلی علیہ الرحمہ سبحانہُ و تعالیٰ، سے راوی ،
روح
ایک فرشتے کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ اسے جنازے کے ساتھ لے کر چلتا اور اس سے کہتا ہے
سن تیرے حق میں کیا کہا جاتا ہے،
(
امام عبدالرحمٰن یہ تابعی عظیم القدر جلیل الشان ہیں رجال صحاح ستہ سے )
حدیث 18 :
یہی
ابن ابی نجیح سے راوی :
جو
مردہ مرتا ہے اس کی روح ایک فرشتے کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ اپنے بدن کو دیکھتی ہے
کیونکر نہلایا جاتا ہے کیونکر کفن پہنایا جاتا ہے کیونکر قبر کی طرف لے کر چلتے
ہیں
(
ابن ابی نجیح یہ تبع تابعین و علمائے مکہ درواۃ صحاح ستہ سے)
حدیث 19 :
یہی
ابو عبداللہ بکر مزنی رحمہ اللہ تعالیٰ سے راوی
مجھ
سے حدیث بیان کی گئی کہ دفن میں جلدی کرنے سے مردہ خوش ہوتا ہے
.............................................
اصحاب، قبور سے حیا کرتے ہیں .....!!!
حدیث 20 :
ام
المومنین صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا ارشاد جو مشکوٰۃ شریف میں
بروایت امام احمد منقول اور اسے حاکم نے بھی صحیح مستدرک میں روایت کیا اور بشرط
بخاری ومسلم صحیح کہا کہ فرماتیں ،
میں
اس مکان جنت آستان میں جہاں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزار پاک ہے یوں
ہی بے لحاظ ستر و حجاب چلی جاتی اور جی میں کہتی وہاں کون ہے، یہی میرے شوہر یا
میرے باپ، صلی اللہ تعالیٰ علی زوجھا ثم ابیہا ثم علیہا وبارک وسلم ،
جب
سے عمر دفن ہوئے خدا کی قسم میں بغیر سراپا بدن چھپائے نہ گئی عمر سے شرم کے باعث،
رضی اللہ تعالٰی عنھم اجمعین،
اس
حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام احمد رضا مخالفین اہل سنت سے سوال کرتے ہیں کہ
فرمائیے
اگرارباب مزارات کو کچھ نظر نہیں آتا تو اس شرم کے کیا معنے تھے اور دفن فاروق سے
پہلے اس لفظ کا کیا منشا تھا کہ مکان میں میرے شوہر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے
سوا میرے باپ ہی تو ہیں غیر کون ہے ؟
حدیث 21 :
ابن
ابی شیبہ و حاکم حضرت عقبہ بن عامر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی
یعنی
میں ایک سا جانتا ہوں کہ گورستان میں قضائے حاجات کو بیٹھوں یا بیچ ازار میں کہ
لوگ دیکھتے رہیں .....
.............................................
زیارت قبور سے مردوں کے جی بہلتے ہیں ......!!!
( ظاہر، کہ اگر دیکھتے سنتے اور سمجھتے نہیں تو ان امور سے جی بہلنا
کیسا )
حدیث 22 :
شفا
ء السقام امام سبکی واربعین طائیہ پھر شرح الصدور میں ہے، سید عالم صلی اللہ تعالی
علیہ ٰ وسلم سے مروی
قبر
میں مردے کا زیادہ جی بہلنے کا وقت وہ ہوتا ہے جب اس کا کوئی پیارا زیارت کو آتا
ہے ...
حدیث 23 :
ابن
ابی الدنیا کتاب القبور میں اور امام عبدالحق کتاب العاقبہ میں ام المومنین صدیقہ
رضی اللہ تعالٰی عنھا سے راوی حضور پرنور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے
فرمایا،
جو
شخص اپنے مسلمان بھائی کی زیارت قبر کو جاتا اور وہاں بیٹھتا ہے میت کا دل اس سے
بہلتا ہے اور جب تک وہاں سے اٹھے مردہ اس کا جواب دیتا ہے،
حدیث 24 :
صحیح
مسلم شریف میں ہے عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے صاحبزادہ عبداللہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ وہ بھی صحابی ہیں، نزع میں فرمایا
جب
مجھے دفن کر چکو، مجھ پر تھم تھم کر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا، پھر میری قبر کے گرد
اتنی دیر ٹھہرے رہنا کہ ایک اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم ہو، یہاں تک
کہ میں تم سے انس حاصل کروں اور جان لوں کہ اپنے رب کے رسولوں کو کیا جواب دیتا
ہوں ،
.............................................
زندوں کی بے اعتدالی سے اموات کو تکلیف پہنچنا :
( ظاہر سی بات ہے کہ زندوں کے افعال واحوال کی اطلاع میتوں کو اگر نہیں
ہوتی تو ان کا تکلیف میں پڑنا بے معنی ہوگا)
حدیث 25 :
امام
احمد بسند حسن عمارہ بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی، سید عالم صلی اللہ علیہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے ایک قبر سے تکیہ لگائے دیکھا، فرمایا
اس
قبر والے کو ایذا نہ دے، اسے تکلیف نہ پہنچا .....
حاکم
و طبرانی کی روایت میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھے ایک قبر پر
بیٹھے دیکھا فرمایا ...... ، او قبر والے قبر سے اتر آ، نہ تو صاحب قبر کو ایذا دے
نہ وہ تجھے ،
اس
کے بعد روایات مناسبہ کے عنوان سے امام احمد رضا نے تین روایات نقل فرمائی ہیں
،
روایت اول :
ابن
ابی الدنیا ابو قلابہ بصری سے راوی، میں ملک شام سے بصرہ کو جاتا تھا، رات کو خندق
میں اترا، وضو کیا، دو رکعت نماز پڑھی پھر ایک قبر پر سر رکھ کر سو گیا ، جب جاگا
تو صاحب ِ قبر کو دیکھا کہ مجھ سے گلہ کرتا اور کہتا ہے، لقد اذیتنی منذا للیلہ،
ائے شخص تو نے مجھے رات بھر ایذا دی ،
(
ابو قلابہ بصری تابعی ثقہ فاضل رجال صحاح ستہ )
روایت دوم :
امام
بہیقی دلائل النبوۃ میں اور ابن ابی الدنیا حضرت ابو عثمان نہدی سے وہ ابن مینا
تابعی سے راوی ، مکین مقبرے میں گیا دو رکعت نماز پڑھ کر لیٹ رہا، خدا کی قسم میں
خوب جاگ رہا تھا کہ سنا، کوئی شخص قبر میں سے کہتا ہے اٹھ کہ تونے مجھے اذیت دی
پھر کہا تم عمل کرتے ہو اور ہم نہیں کرتے خدا کی قسم اگر تیری طرح دو رکعتیں میں
بھی پڑھ سکتا مجھے تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہوتا .......
(
ابو عثمان نہدی اجلہ ء اکابر تابعین سے ہیں، زمانہ ء رسالت پائے ہوئے تھے
ثبت عمائد رجال صحاح ستہ سے )
روایت سوم :
حافظ
ابن مندہ امام قاسم بن مخیمرہ رحمتہ اللہ تعالیٰ سے راوی، اگر میں تپائی ہوئی بھال
پر پاؤں رکھوں کہ میرے قدم سے پار ہوجائے تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس سے کہ کسی
قبر پر پاؤں رکھوں ،
پھر
فرمایا ایک شخص نے قبر پر پاؤں رکھا جاگتے میں سنا ائے شخص الگ ہٹ مجھے ایذا نہ دے
......
(
امام قاسم تابعی ثقہ فاضل رواہ صحاح ستہ سے )
حدیث 26 :
امام
مالک و امام احمد و ابوداؤد و ابن ماجہ و عبدالرزاق و سعید بن منصور و ابن منصور و
ابن حبان و دار قطنی ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے راوی،
سید
عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مردے کی ہڈی توڑنی اور اسے ایذا دینی ایسی ہے
جیسی زندہ کی ہڈی توڑنی،
بعض
روایات دارقطنی میں لفظ فی ا لالم اور زائد یعنی درد پہنچنے میں زندہ و مردہ برابر
ہیں، ذکر فی القاصدالحسن .......
حدیث 27 :
ویلمی
و ابن مندہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے راوی حضور سید عالم صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا
کفن
اچھا دو اور اپنی میت کو چلا کر رونے یا اس کی وصیت میں دیر لگانے یا قطع رحم کرنے
سے ایذا نہ پہنچاؤ اور اس کا قرض جلدی ادا کرو اور برے ہمسائے سے الگ رکھو .....
،
(
یعنی قبور کفار و اہل بدعت و فسق کے پاس دفن نہ کرو)
حدیث 28 :
امام
احمد ابولربیع سے راوی
میں
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ ایک جنازہ میں تھا کسی کے چلانے کی
آواز سنی آدمی بھیج کر اسے خاموش کرادیا، میں نے عرض کی ائے ابو عبدالرحمن آپ نے
اسے کیوں چُپایا؟ فرمایا اس سے مردے کو ایذا ہوتی ہے یہاں تک کہ قبر میں جائے
.....
حدیث 29 :
امام
سعید بن منصور اپنے سنن میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی،
یعنی انہوں نے ایک جنازے میں کچھ عورتیں دیکھیں ارشاد فرمایا پلٹ جاؤ گناہ سے
بوجھل ثواب سے اوجھل، تم زندوں کو فتنوں میں ڈالتی اور مردوں کو اذیت دیتی ہو
،
حدیث 30 :
ابن
ابی شیبہ اپنے منصف میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی،
مسلمان کو بعد موت ایذا دینی ایسی ہے جیسے زندگی میں اسے تکلیف پہنچائی ،
حدیث 31 :
سعید
بن منصور اپنے سنن میں راوی کسی نے اس جناب سے قبر پر پاؤں رکھنے کا مسئلہ پوچھا،
فرمایا ، مجھے جس طرح مسلمان زندہ کی ایذا ناپسند ہے یوں ہی مردہ کی ،
حدیث 32 :
طبرانی
عبدالرحمٰن بن علا بن لجلال سے ان کے والد علا رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان سے
فرمایا،
ائے
میرے بیٹے، جب مجھے لحد میں رکھے بسم اللہ و علیٰ ملتہ رسول اللہ کہنا پھر مجھ پر
آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا ، پھر میرے سرہانے سورہ بقرہ کا شروع یعنی مفلحون تک اور
خاتمہ یعنی امن الرسول سے پڑھنا کہ میں نے سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو
یہ فرماتے سنا
.............................................
وہ احادیث جن میں صراحتاً وارد کہ مردے اپنے زائرین کو پہچانتے اور ان کا سلام سنتے اور انہیں جواب دیتے ہیں ......
حدیث 33 :
امام
ابو عمر ابن عبدالبر کتاب الاستذ کا ردالتمہید میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ
تعالیٰ عنہما سے راوی
حضور
پرنور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی
قبر پر گزرتا اور سلام کرتا ہے اگر وہ اسے دنیا میں پہچانتا تھا اب بھی پہچانتا
اور جواب سلام دیتا ہے
حدیث 34 :
ابن
ابی الدنیا و بیھقی و صابونی وابن عساکر و خطیب بغدادی وغیرہم محدثین ابو ہریرہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی
سید
عالم صلی اللہ علیہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا .....
جب
آدمی ایسی قبر پر گزرتا ہے، جس سے دنیا میں شناسائی تھی اور اسے سلام کرتا ہے میت
جواب سلام دیتا اور اسے پہچانتا ہے اور جب ایسی قبر پر گزرتا ہے جس سے جان
پہچان نہ تھی اور سلام کرتا ہے میت جواب سلام دیتا ہے
حدیث 35 :
امام
عقیلی ،ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی
یعنی
ابوذر ین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ میرا راستہ مقابر پر ہے کوئی
کلام ایسا ہے کہ جب ان پر گزروں کہا کروں، فرمایا یوں کہہ سلام تم پر ائے قبر والو
اہل اسلام اور اہل ایمان سے، تم ہمارے آگے ہو اور ہم تمہارے پیچھے اور ہم ان شاء
اللہ تعالٰی تم سے ملنے والے ہیں ، ابوذرین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یارسول
اللہ! کیا مردے سنتے ہیں؟ فرمایا سنتے ہیں مگر جواب نہیں دیتے .......
(
تنبیہ نبیہ : امام جلال الدین سیوطی شرح الصدور میں اس حدیث کے نیچے فرماتے
ہیں ،
یعنی
حدیث کی یہ مراد ہے کہ مردے ایسا جواب نہیں دیتے جو زندے سن لیں ورنہ وہ ایسا جواب
تو دیتے ہیں جو ہمارے سننے میں نہیں آتا )
حدیث 36 :
طبرانی
معجم اوسط میں عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے راوی
حضور
سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مصعب بن عمیر اور ان کے ساتھیوں کے قبور ہر
ٹھہرے اور فرمایا،
قسم
اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت تک جو ان پر سلام کرے گا یہ جواب دیں
گے
حدیث 37 :
بعینہ
اسی طرح حاکم نے صحیح مستدرک میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرکے
تصحیح کی ....
حدیث نمبر 38 :
حاکم
مستدرک نے بہ فادہ ء تصحیح اور بیھقی دلائل النبوۃ میں بطریق عطاف بن خالد مخذومی
عبدالاعلی بن عبداللہ سے وہ اپنے والد ماجد عبداللہ بن ابی فردا سے راوی،
حضور
سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم زیارت شہدائے احد کو تشریف لے گئے اور عرض کی،
الہی تیرا بندہ اور تیرا نبی گواہی دیتا ہے کہ یہ شہید ہیں اور قیامت تک جو ان کی
زیارت کو آئے گا اور ان پر سلام کرے گا یہ جواب دیں گے ........ ،
حدیث 39 :
ابن
عبی الدنیا اور بیھقی شعب الایمان میں حضرت محمد بن واسع سے راوی مجھے حدیث پہنچی
ہے کہ مردے اپنے زائروں کو جانتے ہیں، جمعہ کے دن اور ایک دن اس سے پہلے اور ایک دن
اس سے بعد
(
تنبیہ : اس حدیث کے یہ معنی کہ بوجہ برکت ِجمعہ، ان تین دن میں ان کے علم وادراک
کو زیادہ وسعت دیتے ہیں جو معرفت و شناسائی ان روزوں میں ہوتی ہے اور دنوں سے بیش
و افزون ہے، نہ یہ کہ صرف یہی تین دن علم وادراک کے ہوں، ابھی سن چکے کہ نبی صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی احادیث کثیرہ مطلق ہیں جن میں بلا تخصیص ایام ان کا علم
ودراک ثابت فرمایا ......
.............................................
وہ جلیل حدیثیں جن سے ثابت کہ سماع اہل قبور سلام ہی پر مقصود نہیں بلکہ دیگر کلام و اصوات بھی سنتے ہیں ......!!!
حدیث نمبر 40 :
بخاری
و مسلم و ابوداؤد و ترمذی و نسائی اپنے صحاح اور امام احمد مسند میں انس بن مالک
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی حضور پر نور سید العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
فرماتے ہیں ،
مردہ
جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور لوگ دفن کرکے پلٹتے ہیں بے شک وہ ان کی جوتیوں کی
آواز سنتا ہے .....
حدیث 41 :
احمد
و ابوداؤد بسند جید برا ء بنت عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی سیدعالم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ، بے شک مردہ جوتیوں کی پہچل سنتا ہے، جب لوگ
اسے پیٹھ دے کر پھرتے ہیں .....
حدیث 42 :
بہیقی
و طبرانی عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی سرور عالم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں، بے شک جب مردہ دفن ہوتا ہے اور لوگ واپس آتے
ہیں وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے ....
حدیث 43 :
ابن
ابی شیبہ نے اپنے مصنف اور ابن حبان نے صحیح مسمیٰ بالتقاسیم و الانواع اور حاکم
نیشا پوری نے الصحیح المستدرک علی البخاری و مسلم اور بغوی نے شرح السنہ اور
طبرانی نے معجم اوسط اور منہاد نے کتاب الزہد اور سعید بن السکن نے اپنی سنن اور
ابن جریر و ابن منذر و ابن مردویہ و بیھقی نے اپنی اپنی تصانیف میں ابو ہریرہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی
حضور
سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری
جان ہے ، جب مردہ قبر میں رکھا جاتا ہے کفش پائے مردم کی آواز سنتا ہے، جب اس کے
پاس سے پلٹتے ہیں ،
حدیث 44 :
جویبر
نے اپنی تنسیر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما سے ایک حدیث طویل روایت
کی جس میں ہے، حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ، بے شک وہ
یقیناً تمہارے جوتوں کی پہچل اور ہاتھ جھاڑنے کی آواز سنتا ہے، جب تم اس کی طرف سے
پیٹھ پھیر کر چلتے ہو .......
حدیث 45 :
طبرانی
و ابن مردویہ ایک حدیث طویل میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بسند حسن راوی،،
ہم ایک جنازے میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہمراہ رکاب حاضر تھے، جب
اس کے دفن سے فارغ ہوئے اور لوگ پلٹے، حضور نے ارشاد فرمایا اب وہ تمہاری جو تیوں
کی آواز سن رہا ہے ....... ،
حدیث 46 :
صحیح
بخاری شریف وغیرہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی یعنی نبی صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چاہ ِ بدر پر تشریف لے گئے جس میں کفار کی لاشیں پڑی تھیں
پھر فرمایا، تم نے پایا جو تمہارے رب نے تمہیں سچا وعدہ دیا تھا یعنی عذاب، کسی نے
عرض کی حضور مردوں کو پکارتے ہیں .... ؟ فرمایا، تم کچھ ان سے زیادہ سننے والے
نہیں پر وہ جواب نہیں دیتے ....
حدیث 47 :
صحیح
مسلم شریف میں عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی یعنی
رسول
اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہمیں کفار بدر کی قتل گاہیں دکھاتے تھے کہ یہاں
فلاں کافر قتل ہوگا اور یہاں فلاں ، جہاں جہاں حضور نے بتایا تھا وہیں وہیں ان کی
لاشیں گریں، پھر بحکم حضور وہ جیفے ایک کنویں میں بھر دیے گئے، سید عالم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور نام بنام ان کفار لیام کو ان کا اور ان کے
باپ کا نام لے کر پکارا اور فرمایا تم نے بھی پایا جو سچا وعدہ خدا ورسول نے تمہیں
دیا تھا کہ میں نے تو پالیا جو حق وعدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا تھا، امیرالمومنین
عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی یارسول اللہ، حضور ان جسموں سے کیونکر کلام
کرتے ہیں، جن کو روحیں نہیں، فرمایا میں جو کہہ رہا ہوں اسے کچھ تم ان سے زیادہ
نہیں سنتے مگر انہیں یہ طاقت نہیں کہ مجھے لوٹ کر جواب دیں،
حدیث 48 :
یوں
ہی صحیح مسلم وغیرہ میں انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اور اس میں ہے کہ
نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تین دن بعد اس کنویں پر تشریف لے گئے اور عمر فاروق
رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جواب میں فرمایا ، قسم اس کی جس کے دست قدرت میں میری جان
ہے جو فرما رہا ہوں اس کے سننے میں تم اور وہ برابر ہو مگر وہ جواب دینے کی طاقت
نہیں رکھتے .....
حدیث نمبر 49 :
یوں
ہی صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حدیث ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی
....
حدیث 50 :
طبرانی
نے بسند صحیح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، سید عالم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ، جیسا تم سنتے ہو یوں ہی وہ بھی سنتے ہیں مگر
جواب نہیں دیتے....
حدیث 51 :
اسی
طرح امام سلیمان بن احمد مذکور نے حدیث عبداللہ بن سیلان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے
روایت کی
حدیث 52 :
ابوا
لشیخ عبید بن مرزوق سے راوی :
یعنی
ایک بی بی مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھیں ، ان کا انتقال ہوگیا ، نبی صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کو کسی نے خبر نہ دی، حضور ان کی قبر پر گزرے، دریافت فرمایا یہ
قبر کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کی ام محجن کی .....، فرمایا، وہی جو مسجد میں جھاڑو
دیا کرتی تھی؟ عرض کی ہاں، حضور نے صف باندھ کر نماز جنازہ پڑھائی ، پھر ان بی بی
کی طرف خطاب کرکے فرمایا، تو نے کون سا عمل افضل پایا؟ صحابہ نے عرض کی یارسول
اللہ کیا وہ سنتی ہے؟ فرمایا، کچھ تم اس سے زیادہ نہیں سنتے، پھر فرمایا اس نے
جواب دیا کہ مسجد میں جھاڑو دینی ....... ،
حدیث 53 :
طبرانی
معجم کبیر و کتاب الدعا میں ادرا بن مندہ اور امام ضیائی مقدسی کتاب الحکام اور
ابراہیم حربی کتاب اتباع الاموات میں اور ابوبکر غلام الخلال کتاب الشافی اور ابن
زہیرہ وصایا العلما عندالموت اور ابن شاہین کتاب ذکرالموت اور دیگر علمائے محدثین
اپنی تصانیف حدیثیہ میں حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی، رسول
اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں ، جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی مرے اور
اس کی قبر پر مٹی برابر کر چکو، تم میں کوئی سرہانے اس کے کھڑا ہو اور فلاں بن
فلانہ، کہہ کر پکارے کہ بیشک وہ سنے گا اور جواب نہ دے گا، دوبارہ پھر یونہی ندا
کرے وہ سیدھا ہو بیٹھے گا، سہ بارہ پھر اسی طرح آواز دے اب وہ جواب دے گا کہ ہمیں
ارشاد کر اللہ تجھ پر رحم کرے مگر تمہیں اس کے جواب کی خبر نہیں ہوتی، اس وقت کہے
یاد کر وہ بات جس پر تو دنیا سے نکلا تھا، گواہی اس کی کہ اللہ کے سوا کوئی سچا
معبود نہیں اور محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ،
اور یہ کہ تو نے پسند کیا اللہ تعالیٰ کو پروردگار اور اسلام کو دین اور محمد صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو نبی اور قرآن کو پیشوا ، منکر و نکیر ہر ایک دو سرے کا
ہاتھ پکڑ کر کہیں گے چلو ہم کیا بیٹھیں اس پاس جمے لوگ اس کی حجت سکھا چکے
......
فائدہ :
امام
ابن الصلاح وغیرہ محدثین اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں ....... ، یعنی اسے وجہ
سے قوت ہے ایک تو احادیث اس کے موید دوسرے زمانہ ء سلف سے علمائے شام اس پر عمل
کرتے آئے ....... نقلہ العلامہ ابن امیر الحاج فی الحلیہ ...... ،
اسی
طرح امام نقاد الحدیث ضیائی مقدسی و امام خاتم الحفاظ حافظ الشان ابو الفضل احمد
بن حجر عسقلانی نے اس کی تفویت اور امام شمس الدین سخاوی نے اس کی تقریر فرمائی
اور اس باب میں خاص ایک رسالہ تالیف فرمایا، امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس
پر عمل کرنا علمائے شام سے نقل فرمایا اور امام ابو بکر ابن العربی نے اہل مدینہ
اور بعض دیگر علماء نے اہل قرطبہ وغیرہا سے اس کا عمل نقل کیا ، میں کہتا ہوں یہ
عمل زمانہ صحابہ و تابعین سے ہے، حضرت ابو امامہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود
اپنے لیے تلقین کی وصیت فرمائی ،...... اور تین تابعیوں سے عنقریب منقول ہو
گا کہ اسے مستحب کہا جاتا تھا ،. ظاہر ہے کہ ان کی یہ نقل نہ ہوگی، مگر صحابہ یا
اکابر تابعین سے جو ان سے پہلے ہوئی ، علامہ ابن حجر مکی کی شرح مشکوٰۃ میں
ہے
اعتضد
بشواہد یر تقی بھا الیٰ درجہ الحسن ......
یہ
حدیث بوجہ شواہد درجہ ء حسن تک ترقی کیے ہے اسی طرح ذیل مجمع بحار الانوار میں
تصریح کی کہ اس نے شواہد سے قوت پائی، واللہ تعالیٰ اعلم
حدیث 54 تا 56 :
امام
سعید بن منصور شاگرد امام مالک و استاذ امام احمد اپنے سنن میں راشد بن سعد و ضمرہ
بن حبیب و حکیم بن عمیر سے راوی، ان سب نے فرمایا، جب میت پر مٹی دے کر قبر درست
کر چکیں اور لوگ واپس آجائیں تو مستحب سمجھا جاتا تھا کہ مردے سے اس کی قبر کے پاس
کھڑے ہوکر کہا جائے، اے فلاں ! کہہ لا الہ الا اللہ تین بار...... َاے فلاں
! کہہ میرا رب اللہ ہے ، اور میرا دین اسلام اور میرے نبی محمد صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم ہیں .....
.............................................
صحابہ کا اہل قبور سے کلام کرنا .........!!!
حدیث 57 :
ابن
ماجہ بسند حسن صحیح عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنھما سے راوی ، یعنی
نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے فرمایا،
جہاں
کسی مشرک کی قبر پر گزرے اسے آگ کا مژ دہ دینا وہ صحابی فرماتے ہیں ، مجھے مصطفیٰ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس ارشاد سے ایک مشقت میں ڈالا، کسی کافر کی قبر پر
میرا گزر نہ ہوا مگر یہ کہ اسے آگ کا مژدہ دیا .....
ہر
عاقل جانتا ہے کہ مژدہ دینا بے سماع و فھم محال اور صحابی مخاطب نے ارشاد اقدس کو
معنی حقیقی پر حمل کیا و لہذا عمر بھر اس پر عمل فرمایا ..... فتبصر
حدیث 58 :
ابن
ابی الدنیا کتاب القبور میں امیرالمومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی یعنی
ایک بار امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بقیع پر گزرے اہل قبور پر سلام
کرکے فرمایا ، ہمارے پاس کی خبریں یہ ہیں کہ تمہاری عورتوں نے نکاح کر لیے اور
تمہارے گھروں میں اور لوگ بسے، تمہارے مال تقسیم ہو گئے اس پر کسی نے جواب دیا ائے
عمر بن الخطاب ہمارے پاس کی خبریں یہ ہیں کہ ہم نے جو اعمال کیے تھے یہاں پائے،
اور جو راہ ِ خدا میں دیا تھا اس کا نفع اٹھایا ، اور جو پیچھے چھوڑا وہ ٹوٹے میں
گیا .....
حدیث 59 :
امام
احمد تاریخ نیشاپور اور بیھقی اور ابن عساکر تاریخ دمشق میں سعید بن المسیب سے
راوی ،
یعنی
ہم مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہ الکریم کے ہمراہ رکاب مقابر مدینہ طیبہ میں داخل
ہوئے ، حضرت مولیٰ نے اہل قبر پر سلام کرکے فرمایا تم ہمیں اپنی خبریں بتاؤگے ؟ یا
یہ چاہتے ہو کہ ہم تمہیں خبر دیں ، سعید بن مسیب فرماتے ہیں ، میں نے آواز سنی کسی
نے حضرت مولا علی کو جواب ِسلام دے کر عرض کی ، یا امیرالمومنین آپ بتائیے ہمارے
بعد کیا گزری ؟ امیر المومنین کرم اللہ تعالیٰ وجہ نے فرمایا تمہاری عورتوں نے تو
نکاح کرلیے اور تمہارے مال ، سو وہ بٹ گئے اور اولاد یتیموں کے گروہ میں اٹھی ،
اور وہ تعمیر جس کا تم نے استحکام کیا تھا اس میں تمہارے دشمن بسے، ہمارے پاس کی
خبریں تو یہ ہیں اب تمہارے پاس کی کیا خبر ہے ؟ ایک مردے نے عرض کی کفن پھٹ گئے ،
بال جھڑ پڑے، خالوں کے پرزے پرزے ہو گئے آنکھوں کے ڈھیلے بہہ کر گالوں تک آئے،
نتھنوں سے پیپ اور گندہ پانی جاری ہے جو آگے بھیجا تھا اس کا نفع ملا اور جو پیچھے
چھوڑا اس کا خسارہ ہوا اور اپنے اعمال میں محبوس ہیں ..... ،
حدیث 60 :
ابن
عساکر نے ایک حدیث طویل روایت کی ، جس کا حاصل یہ ہے کہ عہد معدلت عہد فاروقی میں
ایک جوان عابد تھا، امیر المومنین اس سے بہت خوش تھے، دن بھر مسجد میں رہتا، بعد
عشا باپ کے پاس جاتا، راہ میں ایک عورت کا مکان تھا، اس پر عاشق ہوگئی، ہمیشہ اپنی
طرف متوجہ کرنا چاہتی، جوان نظر نہ فرماتا، ایک شب قدم نے لغز ش کی ساتھ ہو لیا،
دروازے تک گیا، جب اندر جانا چاہا، خدا یاد آیا اور بے ساختہ یہ آیت کریمہ زبان سے
نکلی
ان
الذین اتقوااذا مسھم طائف من الشیطن تذکروا فاذا ھم مبصرون ...... ڈر والوں کو جب
کوئی جھپٹ شیطان کی پہنچتی ہے خدا کو یاد کرتے ہیں، اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی
ہیں ،
آیت
پڑھتے ہی غش کھاکر گرا عورت نے اپنی کنیز کے ساتھ اٹھا کر اس کے دروازے پر ڈال
دیا، باپ منتظر تھا ، آنے میں دیر ہوئی دیکھنے نکلا دروازے پر بے ہوش پڑا پایا،
گھر والوں کو بلاکر اندر اٹھوایا ، رات گئے ہوش آیا، باپ نے حال پوچھا ، کہا خیر
ہے ، کہا بتادے ناچار قصہ کہا باپ بولا، جان ِ پدر ! وہ آیت کون سی ہے؟ جوان
نے پھر پڑھی، پڑھتے ہی غش آیا ، جنبش دی مردہ پایا .... رات ہی کو نہلا کفنا کر
دفن کردیا ، صبح کو امیرالمومنین نے خبر پائی باپ سے تعزیت اور خبر نہ دینے کی
شکایت فرمائی عرض کی، یا امیرالمومنین رات تھی ، پھر امیرالمومنین ہمرائیوں کو لے
کر قبر پر تشریف لے گئے ، آگے لفظ حدیث یوں ہیں ......
فقال
عمر یا فلان ولمن خافہ مقام ربہ جنتن فاجا بہ الفق من داخل القبر، یا عمر قد اعطا
ینھا ربی فے الجنتہ مرتین ......
یعنی
امیرالمومنین نے جوان کا نام لے کر فرمایا ، ائے فلاں! جو اپنے رب کے پاس کھڑے
ہونے کا ڈر کرے اس کے لیے دو باغ ہیں ، جوان نے قبر میں سے آواز دیا، ائے عمر!
مجھے میرے رب نے یہ دولت عظمیٰ جنت میں دو بار عطا فرمائی
.............................................
Raza Academy 11/6/2020
.............................................
مردہ دلوں کی زندگی کا سامان ........ !!!
.............................................
یہ
اللہ پاک کا فضل ہے .......!!!
امام
احمد رضا کی لکھی ہوئی کتاب ........ ،
حیات
الموات فی بیان سماع الاموات ،
(
مردہ دلوں کی زندگی کاسامان مردوں کےسننےکےثبوت میں )
کا
میں مطالعہ کر رہا تھا، پڑھتے پڑھتے اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ اس کتاب میں
موجود حضور سید عالم، مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کریمہ کو لکھ
لیا جائے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت میں پیش کردیا جائے ، اس شوق کے دل میں
پیدا ہوتے ہی میں نے بغیر کسی تاخیر کے اس کام کو شروع کردیا ،
اس
مضمون میں آپ کو سلسلہ وار ساٹھ احادیث مبارکہ پڑھنے کی سعادت نصیب ہوگی، ان شاء
اللہ تعالٰی......
متوجہ
ہو کر اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث کریمہ کا مطالعہ کیجیے اور
فیوض و برکات حاصل کیجیے .........
مجھے
امید ہی نہیں بلکہ کامل یقین ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ پڑھتے پڑھتے جب آپ 60 ویں
حدیث پاک تک پہنچو گے ، تو ضرور آپ کا دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
احادیث کی برکتوں سے معطر و منور ہو چکا ہوگا اور آپ مکمل یقین و اعتماد کے ساتھ
اس بات کا اعتراف بھی کرچکے ہوں گے کہ حق تو اہل سنت وجماعت کے ساتھ ہی ہے
...........
مطالعہ
کے دوران آپ خود اس بات کا احساس بھی کریں گے کہ
کل
تک تو سنتے آئے تھے،
آج
خود اپنی نظروں سے دیکھ لیا کہ اعلیٰ حضرت
امام
احمد رضا خاں بریلوی
علیہ
الرحمہ جب کسی مسئلہ پر قلم اٹھایا کرتے تھے تو اسے کس قدر واضح فرما دیا کرتے تھے
اور پھر لکھتے لکھتے دلائل و براہین کے کیسے کیسے انبار لگا دیا کرتے تھے
.............. ؟
............................................
ماشاءاللہ
ReplyDelete