واقعہ معراج سے ستم رسیدہ اہل اسلام کے لئے خصوصی پیغام
پیغام معراج : کلفتوں کی شب تاریک کے بعد اُمید کا سورج یقینا طلوع ہوگا
از:عطاءالرحمن نوری (ریسرچ اسکالر)مالیگاﺅں
پیغمبراسلام ﷺ وادی حجاز میں دعوت توحید عام کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے، ہرگھر میں پیغام پہنچا رہے ہیں، ہر مجمع میںا س کا اعلان فرما رہے ہیں، ہرخلوت میں اسی کا ذکر ہے ، مکہ کے ہرکوچہ وبازار میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا چرچا کر رہے ہیں۔ یہ ساری کوششیں ایک نقطہ نظرپر مرکوز ہیں کہ انسانوں کی پیشانیاں معبودان باطل کے آستانوں کوچھوڑ کرصرف اور صرف اس حی وقیوم کی بارگاہ بے کس پناہ میں سجدہ ریز ہوں جوساری کائنات کا سچا اورحقیقی خالق ومالک ہے۔ ہرشخص جس سے ملاقات ہوتی ہے،آزاد ہو یا غلام، کمزور ہو یا توانا، غریب ہو یا امیر، مرد ہو یا عورت، سب کوکلمہ توحید کا درس دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مکہ کے لوگ نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس دعوت پر لبیک کہتے اور دارین کی سعادتوں سے دامن کو بھر لیتے لیکن اس کے بالکل بر عکس ہوا، کفار ومشرکین نبی کریم علیہ السلام کی اذیت رسانی کے درپے ہو گئے۔ جن کی راہوں میں پھولوں کی سیج سجائی جانی چاہیے تھی ان کی راہوں میں کانٹے بچھائے گئے، جن کے بدن کی خوشبو سے کلیوں کومہک ملی ان کے جسم نازنین پر کوڑا کرکٹ ڈال دیا گیا، طعن وتشنیع کے سارے تیر جو اُن کی ترکش میں تھے ان کوبے رحمی سے وہ استعمال کرتے تھے، جھوٹے الزامات اور بہتانوں کی بارش کرتے تھے، اپنے گھروں کا کچرا حضورﷺ کے صحن میں پھینک دیا کرتے تھے، غلاظتیں اٹھا کر دراقدس پر ڈھیر کردیا کرتے تھے، حتی کہ نماز بھی سکون و اطمینان سے پڑھنے کی فرصت نہیں دیتے تھے،غرضیکہ ہروہ حربہ استعمال کیا گیا جس کے سبب دعوت اسلام کا سیل رواں رک جائے،اذیت پہنچانے کا ایسا کوئی طریقہ نہ تھا جس سے انہوں نے رحمت دوعالمﷺ کو دُکھ نہ پہنچایا ہو مگر پہاڑوں کی چوٹیاں سر اٹھا اٹھا کر استقامت کے جبل شامق کوخراج پیش کررہی تھی کہ ہمارا سخت وجود ان ظلم وتشدد کو برداشت کرنے سے قاصر مگر وجہ تخلیق کائنات ان مظالم کو برداشت کرنے کہ باوجود لبوں سے مسکراہٹوں کے پھول نچھاور کرتے جا رہے ہیں۔ کفار ومشرکین اذیت رسائی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رہے لیکن ہرجوروستم حضورﷺ کے ذوق بندگی اور شوق محبت کوکم کرنے کے بجائے فزوں سے فزوں ترکرتا چلا جاتا ہے۔
اپنے مشن کی تکمیل کی خاطرپیغمبراسلامﷺ نے شہرطائف کا رخ کیا۔ مگرکسی کوبھی توفیق نہ ہوئی کہ داعی برحق کی دعوت برحق کوقبول کرتا بلکہ کسی نے شائستگی سے جواب دینے کی زحمت تک گوارا نہ کی، انتہائی بے مہری اورڈھٹائی سے اس دعوت کو مسترد کر دیا، مزید اپنی رذالت وکمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولے:
اے محمد (ﷺ) ! ہمارے شہر سے نکل جاﺅ، ہمیں اندیشہ ہے کہ تم ہمارے نوجوانوں کو اپنی باتوں سے بگاڑ دو گے.
اس کے علاوہ انہوں نے شہر کے اوباشوں کو اور نوخیز چھوکروں کو پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ کے پیچھے لگا دےا، وہ جلوس کی شکل میں اکٹھا ہو گئے اور حضورﷺ کا تعاقب شروع کر دیا، آواز کستے، پھبتیاں اڑاتے، دشنام طرازی کرتے، اپنے بتوں کے نعرے لگاتے ہوئے حضور ﷺ کے پیچھے لگ گئے، جس راستے سے سرکار دوعالم ﷺ کو گزرنا تھا طائف کے شہری دو صف بنا کر بیٹھ گئے اور رحمت عالم ﷺ جب ان کے درمیان سے گزرے تو انہوں نے پتھر برسانے شروع کئے، حضور ﷺ کے بابرکت قدموں کو اپنے پتھروں کا نشانہ بناتے، چلتے ہوئے جو پیر زمین پر رکھتے ٹھک سے پتھر اس پر لگتا، حضورﷺ اسے اٹھاتے اور دوسرا پیر زمین پر رکھتے تو وہ پیر ان کی زد میں آجاتا یہاں تک کہ ان ظالموں کی سنگ باری سے قدم مبارک زخمی ہوگئے اور خون بہنا شروع ہو گیا، ان کی سنگ باری جب شدت اختیار کر لیتی تو محسن انسانیت ﷺ درد کی شدت سے بیٹھ جاتے وہ ظالم آگے بڑھتے حضور ﷺکو بازووں سے پکڑ تے اور کھڑا کر دیتے اور پھر پتھر برسانا شروع کر دیتے اور ساتھ ہی قہقہے لگاتے۔
المختصر دنیا میں مظلوموں کی کمی نہیں لوگوں کو ہر قسم کے مظالم برداشت کرنا پڑے مگر جبروتشدد ، ظلم وجور جس طرح انیس بیکساں رحمت ہر دو جہاں ارواحنا فداہ ﷺ پر کیا گیا تاریخ میں اس کی مثال مشکل ہے۔
یہ بھی پڑھیں : سیدنا امام جعفر صادق : خانوادہ نبوت کے عظیم چشم وچراغ
اللہ جل مجدہ کے عبدمنیب اور حبیب لبیب ﷺ کے جوآنسو طائف کی زمین پر ٹپکے، خون نایاب کے جومعطر قطرے گلشن اسلام کی آبیاری کے لیے جسم سے بہے شان کریمی نے انہیں موتی بنا کر چن لیا اور دعا کے اٹھنے والے ہاتھ کیا اٹھے کہ قدرت کی بندہ نوازیوں نے روشن مستقبل کی کلید اُن مبارک ہاتھوں میں دے دی، الطاف الٰہی کا یوں مسلسل ظہور ہونے لگا کہ خاطر پر حزن ملال کا جو درد تھا وہ صاف ہوتا گیا، آخر وہ مبارک رات آئی، جب دست قدرت نے اپنے مادی، معنوی اور روحانی خزانوں کے منہ کھول دیئے۔ نورذات پر صفات کے جو پردے پڑے تھے ایک ایک کر کے اٹھنے لگے۔ بیکراں مسافتیں سمٹی گئیں اور عبد کامل حریم قدس میں ”دنیٰ فتدلیٰ“ کی منزلیں طے کرتا ہوا قرب وحضوری کے اس مقام رفیع پر فائز کر دیا گیا جس کی تعبیرزبان قدرت نے ”کان قاب قوسین اوادنی“ کے پیارے پیارے کلمات سے فرمائی۔ اس سے مزید قرب کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔
مذکورہ بالامظالم ونتیجے کے پیش نظرمفسر قرآن حضرت علامہ پیر کرم شاہ ازہری تحریر فرماتے ہیں :
” واقعہ معراج کی اہمیت اسی قدر نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے اور برگزیدہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو زمین و آسمان بلکہ ان سے بھی ماورا اپنی قدرت و کبریائی کی آیات بینات کا مشاہدہ کرایا بلکہ اس میں ستم رسیدہ اہل اسلام کے لئے بھی ایک مژدہ ہے کہ شبِ غم اب سحر آشنا ہونے والی ہے ، تمھارا آفتاب ِ اقبال ابھی طلوع ہوا چاہتا ہے ۔ شرق و غرب میں تمہاری سطوت کا ڈنکا بجے گا لیکن مسند اقتدار پرمتمکن ہونے کے بعد اپنے پروردگار کو فراموش نہ کرنا۔ اس کی یاد اور اس کے ذکر میں غفلت سے کام نہ لینا اور اگر تم نے نشہ حکومت سے بدمست ہو کر نافرمانی اور سرکشی کی راہ اختیار کی تو پھر ان کے ہولناک نتائج سے تمہیں دوچار ہونا پڑے گا ۔ دیکھو! تم سے پہلے ہم نے بنی اسرائیل کو غلامی اور ظلم و ستم سے نجات دی ، بحراحمر کو ان کے لیے پایاب کیا ، ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے جابر دشمن کو سمندر کی موجیں خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئیں ۔ لیکن جب انہیں عزت ووقار بخشا گیا تو وہ اپنے مالک حقیقی کے احکام سے سرتابی کرنے لگے اور اس کے انعامات کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے انہوں نے نافرمانی اور نا شکر گزاری کو اپنا شعار بنا لیا تو ہم نے ان پر ایسے سنگدل دشمن مقرر کر کر دئے جنہوں نے انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا اور ان کے مقدس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ اسی عبرت آموزی کے لئے واقعہ معراج کے بعد بنی اسرائیل کا ذکر فرمایا ۔
اللہ رب العزت ہم سب کو تقاضائے معراج اور تحفہ معراج کی قدر کی توفیق عطافرمائے ۔آمین
ٹی آر پی اور افواہوں سے دور،سچائی ، دیانت اور انصاف سے قریب ، مبنی بر حقیقت مضامین ،مقالات ، تعلیمی ، انقلابی ، معیاری اور تحقیقی و تفتیشی ویڈیوز کے لیے غیر جانبدار ادارے نوری اکیڈمی کے یوٹیوب چینل ، ویب سائٹس اور سماجی رابطے کی تمام سوشل سائٹس پر اپڈیٹ پانے کے لیے نوری اکیڈمی کو سبسکرائب ، فالو اور لائک کریں۔
..:: FOLLOW US ON ::..
![]() |
![]() |
![]() |
No comments:
Post a Comment