تعلیم کا مقصد اخلاقیات، شعور اور بہتر اقدار ہیں یا محض روزگار ؟
محض معاش کے لیے حصولِ تعلیم سے بچہ معاشی حیوان تو بن سکتا ہے ، اچھا انسان ہر گز نہیں بن سکتا
از:عطاءالرحمن نوری (سینئر ریسرچ فیلو) مالیگاﺅں
آج ہم تعلیم کی ضرورت کو تو بہتر طریقے سے سمجھ رہے ہیں مگر اس کے اصل معنی اور مقصد کوفراموش کر چکے ہیں۔ آج ہمارا مقصد صرف اور صرف ڈگری کا حصول ہے۔ آج ہماری تعلیم کا حقیقی مقصد صرف بہتر روزگار کی تلاش ہے۔ ہم آج تعلیم کو مختلف طبقات میں تقسیم کر چکے ہیں اور ان طبقات کے ساتھ بھی ہم نے روزگار جوڑ رکھے ہیں ۔ امتحان کے بعد طلبہ کی یہ سوچ بن جاتی ہے کہ وہ کونسی فیلڈ ہوگی جومیری پوری زندگی کو پیسوں سے بھر کر رکھ دے گی؟ ایسی کونسی تعلیم ہوگی جس سے میں پوری زندگی عیش وعشرت سے گزار سکوں گا ؟ ایسی کوئی تعلیم مل جائے جو مجھ کو پوری دنیا سے زیادہ امیر بنا دے۔ اسی لیے تعلیم حاصل کرتے ہوئے اخلاق، اخلاص، صلہ رحمی، مروت، بھائی چارگی، ہمدردی اور انسانیت جیسے اوصاف سیکھنے کی بجائے اسٹوڈنٹس کا فوکس صرف اچھے گریڈیا اچھے نمبروں پر ہوتا ہے۔ اس کے قصوروار کچھ حد تک تعلیمی ادارے بھی ہیں، جب ایک طالب علم اپنے والدین کو دیکھتا ہے کہ ڈونیشن اور فیس کی ادائیگی کی خاطر کس طرح اس کے والدین گھر بار، زیورات اورجائیداد فروخت کرکے اس کا ایڈمیشن کروارہے ہیں تو کہی نہ کہی اس کے دل میں یہ بات موجود رہتی ہے کہ یہ تمام چیزیں فراغت کے بعد میں گھر والوں کو سود سمیت واپس کروں گا اور یہی منفی سوچ معاشرے کے لیے مضر ثابت ہوتی ہے ۔
والدین اپنے بچوں کو اسی لیے تعلیم دلاتے ہیں کہ وہ پڑھ لکھ کر کمانے کھانے کے قابل ہو جائیں ۔ بلا شبہہ کھانا کمانا انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ والدین کو اس بات کی فکر ہونی بھی چاہیے کہ بچہ پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔ مگر کیا صرف پیٹ بھرنا اور زندگی کی دوسری ضرورتوں کو پوری کرنا ہی تعلیم کا بنیادی مقصد قرار دینا مناسب ہے ؟ ایسا کرنے سے بچہ معاشی حیوان تو بن سکتا ہے، اچھا انسان ہر گز نہیں بن سکتا۔ اچھا انسان بنانے کے لیے حق اور نا حق، جائز اور ناجائز میں تمیز سکھانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اخلاق و آداب اور تہذیب و تمدن کی اعلیٰ قدروں سے روشناس کرانا بھی ضروری ہے۔ اس پہلو کو نظر انداز کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمیں اکثر ایسے افراد سے سابقہ پڑتا ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ یا ماہر فن ہونے کے باوجود اخلاق وکردار کے اعتبار سے بہت پست ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ سماج کے لیے مفید ہونے کے بجائے مضر ثابت ہوتے ہیں۔
آج کے دور کے انسان کی مادی ترقی کا یہ عالم ہے کہ اس نے چاند اور مریخ تک جانے کا خواب پورا کر لیا مگر اس کی اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ جنسی آزادی اور ہم جنس پرستی کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اس گھناونے فعل کو قانون کا تحفظ فراہم کر دیا۔ عالمی بھائی چارہ تو دور کی بات ہے، خون اور خاندان کے رشتے منتشر ہو رہے ہیں۔ بھائی، بھائی کے خون کا پیاسا ہے۔ ہمارے موجودہ تعلیمی نظام نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کوئی اس دنیا کو خطرے سے بچا سکتا ہے تو وہ یہی بچے ہیں جو ہماری تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں دنیا کو تباہی سے بچائیں تو ہم سبھی کو بالخصوص ٹیچرس، والدین اور اسکول انتظامیہ کا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تعلیم کی عمارت کی بنیاد خداشناسی پر رکھیں۔ بہت چھوٹی عمر میں جب ہم انہیں حروف شناسی کراتے ہیں تبھی ہم انہیں خدا شناسی بھی کرائیں۔ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ تدریجی انداز میں خالق اور مخلوق کی حیثیت اور ان کے درمیان کے رشتوں کے بارے میں بچوں کے جذبہ تجسس کو ہوا دیں تاکہ وہ بچے پختہ عمر تک پہنچتے ہی ہماری رہنمائی میں اپنے خالق کو خود دریافت کرلیں۔ اس طرح خالق کی پوری کائنات اس کے تصرف میں آجائے گی۔ اب اس کی منزل چاند ستاروں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پوری کائنات کی تسخیر اس کا ہدف ہوگا، مگر مقصد بدل چکا ہوگا۔ اب اس کی تلاش و جستجو حاکمیت اور ملوکیت کے لیے نہیں بلکہ انسانی فلاح اور خالق کی خوشنودی کے لیے ہوگی۔
٭٭٭
( مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں، ادارہ نوری اکیڈمی کاان سے اتفاق ضروری نہیں۔ )
ٹی آر پی اور افواہوں سے دور،سچائی ، دیانت اور انصاف سے قریب ، مبنی بر حقیقت مضامین ،مقالات ، تعلیمی ، انقلابی ، معیاری اور تحقیقی و تفتیشی ویڈیوز کے لیے غیر جانبدار ادارے نوری اکیڈمی کے یوٹیوب چینل ، ویب سائٹس اور سماجی رابطے کی تمام سوشل سائٹس پر اپڈیٹ پانے کے لیے نوری اکیڈمی کو سبسکرائب ، فالو اور لائک کریں۔
..:: FOLLOW US ON ::..
![]() |
![]() |
![]() |
No comments:
Post a Comment