ڈاکٹر حامد اقبال .......!!!
ازقلم ، شکیل احمد سبحانی
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد، خدائے بخشندہ
شہر میں برپا ہونے والی وہ اک قیامت ہی تھی ، جس نے
دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں انسانوں کو شہر خموشاں پہنچا کر ہزاروں بچوں کو یتیم ،
عورتوں کو بیوہ اور ضعیف والدین کو بے سہارا کرکے رکھ دیا ، ہاں یہ اسی وقت کی بات
ہے جب شہر میں کرونا وبا کے سبب خوف و دہشت تھی ، مریضوں کی تعداد بڑھتے ہی جا رہی
تھی، گلی گلی میں جنازے اٹھ رہے تھے، طبی سہولیات میسر نہ تھیں ، دواخانے اور
ہاسپٹلز بند تھے ، کوئی اپنی بیمار ماں کو لیے ہاسپٹلس کے چکر کاٹ رہا تھا تو کوئی
اپنے باپ، دادا، بھائی، بہن کو لیے ڈاکٹرز کو ڈھونڈھ رہا تھا، بہت سارے ڈاکٹرز جس
وقت خود خوف میں مبتلا ہوچکے تھے آزمائش کی اس گھڑی میں جو غریبوں، محتاجوں، ضرورت
مندوں اور مریضوں کے ساتھ ان کا ہمدرد بن کر کھڑا رہا، میں اسی کی بات کر رہا ہوں
، جس نے غریبوں کو سہارا دیا، ضرورت مندوں کی مدد کی، مصیبت اور پریشانی سے رونے
والوں کے آنسوؤں کو پوچھنے کی کوشش کی ، اس کا ذکر کرتے ہوئے عجیب خوشی محسوس ہو
رہی ہے ، اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے جو تسکین قلب میسر آرہی ہے، اس کا مزہ ہی
کچھ اور ہے ........
ڈاکٹر حامد اقبال صاحب کا نام مالیگاؤں شہر اور اطراف
و جوانب کے علاقوں کے لیے محتاج تعارف نہیں ، امراض ِ اطفال کے ایک بڑے ہی ماہر
ڈاکٹر کے طور پر آپ کی شہرت ہے ، لیکن اس کے علاوہ بھی بہت ساری خوبیاں ان کے رب
نے انہیں بخشی ہیں ، ایک نہیں کئی ایسے واقعات اس وقت میرے ذہن میں موجود ہیں جسے
اگر قلمبند کردیا جائے تو لوگ اسے پڑھ کر واہ واہ کہہ اٹھیں، دل تو چاہتا ہے کہ
کچھ ایسی باتوں کا تذکرہ کر دیا جائے لیکن میں خوب جانتا ہوں کہ ڈاکٹر موصوف کو یہ
بات ناگوار گزرے گی بس اسی لیے اپنے قلم کو روک رہا ہوں کہ آخرت کا خزانہ سمجھ کر
جو کارِ ثواب انہوں نے اکٹھا کر رکھا ہے جب وہ نہیں چاہتے تو پھر کیوں اس کی تشہیر
کی جائے ...........
لیکن کرونا وائرس کی وبا کے دوران ڈاکٹر حامد اقبال
صاحب نے بحیثیت ایک ڈاکٹر، جو خدمات انجام دیں ان باتوں کو چھپا کر رکھنا میرے
نزدیک کسی جرم سے کم نہیں .......... ،
جس وقت شہر کے بہت سارے دواخانے اور ہاسپٹلز بند تھے
اس وقت ڈاکٹر حامد اقبال صاحب کا ہاسپٹل نہ صرف کھلا ہوا تھا ، بلکہ وہ خود
بھی اپنے ہاسپٹل میں موجود ہوا کرتے تھے اور ان کا پورا اسٹاف بھی حاضر رہا
کرتا تھا ، مریضوں کے لیے عمر کی قید اٹھادی گئی تھی ، بچے بوڑھے جوان سبھی آ رہے
تھے ، بچوں کے اس ہاسپٹل میں بڑی عمر کے لوگوں کو بھی ایڈمیٹ کیا جارہا تھا ، یہاں
بہانہ بازی کی بجائے انسانیت نوازی کا مظاہرہ کیا جارہا تھا ، مریضوں کو خوف ودہشت
میں مبتلا ہونے سے بچایا جارہا تھا .......... ،
انتہائی ہنگامی حالات میں ڈاکٹر حامد اقبال صاحب کی
یہ خدمت صرف اپنے ہاسپیٹل تک محدود نہیں تھی ، بلکہ مریضوں کے لیے وہ بغیر کسی خوف
کے لوگوں کے گھروں پر بھی پہنچ رہے تھے ، ایک دن میں نے انہیں فون کرکے بتایا کہ
ایک غریب مریضہ نوجیون ہاسپٹل میں ایڈمیٹ ہے ، اس کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں، آکسیجن
کی سخت ضرورت ہے ، انہوں نے جواب دیا کہ یہ کام تو فون پر بھی ہو سکتا ہے لیکن تم
فکر مت کرو میں خود ہاسپٹل پہنچ کر اس معاملے کو دیکھتا ہوں ....... ، مجھے
یاد ہے کہ دو گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ ان کا فون آیا اور کہنے لگے کہ میں
ہاسپیٹل ہو کر آگیا اپنے دوست سے کہو فکر نہ کریں، اس مریضہ کو آکسیجن مہیا کروا
دی گئی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی انہوں نے کئی مرتبہ خود سے اس مریضہ
کی کیفیت مجھ سے دریافت کی ایک دن جب میں نے انہیں بتایا کہ صحت یاب ہونے کے
بعد اسے ڈسچارج کردیا گیا ہے تو خوش ہو کر کہنے لگے کہ بڑے لوگوں کی خیریت تو سب
دریافت کرتے ہیں لیکن غریبوں کی خیریت پوچھنے سے دل کو جو اطمینان نصیب ہوتا ہے ،
اس کی بات ہی کچھ اور ہے ........ ،
ایک مریض جسے کئی دنوں سے آکسیجن پر رکھا گیا تھا اس
کی میڈیکل رپورٹیں لے کر میں خود ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ پر یہ مشورہ کرنے کے لیے
پہنچا کہ کیا اس مریض کو گورنمنٹ کے ماتحت چلائے جا رہے ہاسپٹل میں ایڈمیٹ کروا
دیا جائے ....... ؟ ( اس وقت کسی مریض کو ایڈمیٹ کروانے کا کیا مطلب تھا اسے
بتانے کی ضرورت نہیں ؟) ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مریض کو کہیں ایڈمیٹ کرنے کی کوئی
ضرورت نہیں ، اسے گھر کے اوپری منزلے پر الگ کردیا گیا احتیاط کے لیے بس یہی کافی
ہے ، میں خود اپنی نگرانی میں اس کا علاج کروں گا، آپ لوگ کوئی ٹینشن نہ لیں ، ان
شاء اللہ ہم اسے کور کرلیں گے ، یہ سن کر مِری جان میں جان آئی لیکن ڈاکٹر صاحب نے
جیسے ہی کہا کہ چلو پہلے مریض کو چل کر دیکھ لیتے ہیں ، تو یوں لگا کہ جیسے میرے
قدموں تلے زمین کھسک گئی ہو ، وجہ یہ تھی چند منٹ قبل ہی میں مذکورہ مریض کے گھر
پر تھا لیکن میری ہمت نہیں تھی کہ اوپری منزلے پر جا کر اس کی عیادت کرتا، اب تو
ڈاکٹر صاحب کا حکم تھا ، کلمہ درود پڑھتے پڑھتے ان کے پیچھے پیچھے چل دیا ، جب اس
مریض کے گھر پہنچ کر واپس ہونے لگے تو دروازے پر فکر مند اور اداس بیٹھی وہ ضعیف
والدہ ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعائیں دے رہی تھی جس کا بیٹا
آکسیجن کے سہارے موت اور زندگی سے لڑنے کی کوشش کر رہا تھا، میں سوچنے لگا، میرے
کانوں سے تو ایک ماں کی دعا ٹکرائی ہے ایسی ہی بہت ساری مائیں اس وقت ڈاکٹر حامد
اقبال صاحب کے لیے دعائیں کر رہی ہوں گی ......
میرے عزیز دوست غلام فرید نے بتایا کہ ایک نوجوان کی
آنکھیں اس وقت بھیگ گئیں جب وہ کرونا وبا کے دوران اپنے بزرگ والد کو ملنے والی
نئی زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر حامد اقبال صاحب کی خدمات کو یاد کرتے ہوئے
انہیں دعائیں دے رہا تھا ، فرید صاحب کہتے ہیں کہ جس محلے کو کرونا مریضوں کے سبب
سیل کیا جا چکا ہو، وہاں پہنچ کر کسی مریض کو دیکھنا اور پھر اس کا علاج کرنا
واقعی بڑی ہمت کا کام تھا، ڈر اور خوف کے ایسے ماحول میں جگہ جگہ مریضوں تک پہنچ
کر ڈاکٹر حامد اقبال صاحب نے جو خلق خدا کی خدمت کی اس نے دلوں کو فتح کرنے کا کام
کیا ......... ،
اک مریض نے رو بہ صحت ہونے کے بعد مجھے بتایا کہ میرے
بھائی کی کرونا کے سبب موت کے بعد میری طبیعت اس قدر بگڑ چکی تھی کہ ذہن مکمل طور
پر منتشر ہو چکا تھا، رضوی سلیم شہزاد کے مشورے پر جب میں نے ڈاکٹر حامد اقبال
صاحب سے رابطہ کیا تو مجھے انہوں نے بڑی ہمت اور بہت حوصلہ دیا ، علاج کیا اس
دوران میں بار بار ان کے ہاسپٹل پہنچ کر ان سے ملتا رہا لیکن انہوں نے کبھی بھی
بات کا ذرہ برابر بھی مجھے احساس نہیں ہونے دیا کہ میں ا یک ایسا مریض ہوں جس نے
ایک کرونا مریض کے انتقال سے قبل اس کی خدمت کی تھی اور انتقال کے بعد بھی غسل و
تدفین تک اس کے ساتھ رہا .........
ان واقعات کو بتاتے ہوئے اس کی آنکھیں بھی بھر آتی
ہیں اور
پھر وہ دعائیہ کلمات اپنی زبان سے ادا کرتے ہوئے کہتا
ہے کہ میں زندگی بھر ڈاکٹر حامد اقبال صاحب کے اس احسان کو بھلا نہیں سکتا ،
.............................................
3/7/2020
No comments:
Post a Comment