تفسیر و حدیث میں ہندُستان کا تذکرہ
ہند کی تاباں تاریخ کا درخشاں باب
٢٤ ذی قعدہ عرسِ حسان الہند (خلدآباد) پر علمی خراج عقیدت...!
بلگرام تاریخِ ہند کے ماتھے کا جھومر ہے... جہاں کی
خاک سے اُٹھنے والی شخصیات نے علم و روحانیت اور تحقیق و تدقیق کی بزم میں اُجالے
برپا کر دیے... واسطی ساداتِ کرام کا وہ عظیم خاندان یہاں فروکش ہوا؛ جن میں بڑے
بڑے علما، صلحا، مفتیانِ دین اور عقلاے عصر و حکماے عہد پیدا ہوئے... اعلیٰ حضرت
کا مرشد گھرانہ؛ ساداتِ مارہرہ مطہرہ کے جدِ امجد حضرت میر سید عبدالجلیل بلگرامی
علیہ الرحمۃ بھی اسی بلگرامی خانوادے کے فردِ فرید تھے...
ساداتِ بلگرام میں حسانُ الہند علامہ میر سید غلام
علی آزاد بلگرامی (ولادت:١١١٦ھ- وصال١٢٠٠ھ) کی
علمی خدمات کا شہرہ جہان بھر میں ہے... آپ نے تذکرہ و تاریخ اور شعر و ادب میں
عالمی شہرت پائی... مدحتِ نبوی ﷺ میں حسانُ الہند کے عربی و فارسی ذخائر اَدبی
بلندیوں کا نایاب خزینہ ہیں... محورِ تحقیق ہیں...اپنے شعری اثاثے میں مضمون
آفرینی کے جلوے بکھیرے... بزمِ عشقِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو مشکبار بنا
دیا...
حسانُ الہند کی یہ کتاب "شمامۃ العنبر فی ماورد
فی الہند من سید البشر" ﷺ(تصنیف: ١١٦٣ھ) ارضِ
ہند کی اسلامی شوکت کا نفیس باب ہے... یہ کتاب "تفسیر و حدیث میں ہندُستان کا
تذکرہ" کے عرفی نام سے ترجمہ ہوئی... ٩٨ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو دسمبر ٢٠٠٣ء میں
دارالعلوم جائس رائے بریلی نے شائع کیا... کتاب کا اردو ترجمہ جناب ڈاکٹر مولانا
سید علیم اشرف جائسی نے کیا... ابتدا میں محققانہ مقدمہ لکھا...اور تذکرہ نویسی کا
حق ادا کر دیا... احادیث کی تخریج بھی کی... پوری کتاب علم و آگہی کا مرقع ہے...
اِس علمی مرقع کو عرسِ حسان الہند (٢٤ ذی
قعدہ؛ارضِ خلدآباد) کی مبارک ساعتوں میں مطالعہ کی میز پر آویزاں کیا جا رہا ہے...
اُمید کہ ہند میں اپنی تاریخ کے ان تابندہ نقوش کے مطالعہ سے درخشاں مستقبل کی
تعمیر کی جا سکے گی... اور حال کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے عزم و یقین کے دیے
طاقِ ہند پر روشن کریں گے... تا کہ شرک کی تاریکیاں؛ توحید کی کرنوں سے دَم توڑ
جائیں... اور ظلم شکست سے دوچار ہو...امنِ اسلامی کی صبح تابندہ طلوع ہو.... بزمِ
عشقِ رسالت میں نغماتِ پاکیزہ کی صداے بازگشت سُنائی دے...
غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
No comments:
Post a Comment