سیدناابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی زندگی میں” توکل الیٰ اللہ“ کے نادرونایاب نمونے
آج سنت ابراہیمی تو اداہورہی ہے مگر حضرت ابراہیم جیسا توکل کیوں نہیں :ایک لمحہ فکریہ
از:عطاءالرحمن نوری(ریسرچ اسکالر)مالیگاوں
توکل دل کی حالتوں میں سے ایک حالت ہے اور یہ خداوند کریم کی وحدانیت اور اس کے لطف وکرم پر ایمان لانے کا نتیجہ ہے ۔توکل کا معنی یہ ہیں کہ دل ہر معاملے میں وکیل یعنی کارسازِ دوجہاں پر اعتماد کرے اور اس کی ذات سے مطمئن رہے،کسی بھی قسم کا شک وشبہ پیدانہ ہو،کسی معاملے میں فکرمند نہ ہو،ظاہری اسبا ب میں خلل پڑنے سے مایوس نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ رکھے کہ وہی اس کے تمام معاملات حل فرمانے والاہے اور ہرکام خداکے حکم سے ہوتاہے،”نعم المولیٰ ونعم الوکیل “یعنی اچھامولیٰ اور اچھی وکالت پر کامل یقین واعتماد رکھے ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں کو توکل کا حکم دے کر اس کو ایمان کی شرط ٹھہرایاہے اور ارشاد فرمایا: ”اور اللہ ہی پر بھروسہ کرواگر تمہیں ایمان ہے“(سورہ مائدہ،پ6،آیت 23)مزیدارشاد فرمایا:”اور جو کسی بات کا ارادہ پکاکرلوتو اللہ پربھروسہ کرو،بے شک توکل والے اللہ کو پیارے ہے۔“(آل عمران،آیت 159)اس طرح کی متعدد آیات قرآن حکیم میں موجود ہیں جن میں توکل کی اہمیت وافادیت بیان کی گئی ہے۔ حضورﷺنے فرمایااگر تم خداپر ایسا توکل کروگے جیسا توکل کاحق ہے تو وہ تمہارارزق تم کو پہنچا دے گا اسی طرح جیسے پرندوں کو پہنچاتاہے جو صبح کو بھوکے اُڑ کرجاتے ہیں اور سیر ہوآتے ہیں ۔ (کیمیائے سعادت،ص881)مزیدفرمایاجو شخص خداکی پناہ میں جائے گاحق تعالیٰ اس کے سب کاموں کی سربراہی فرمائے گااور اس کی روزی ایسی جگہ سے پہنچا دے گاجو وہ نہیں جانتاہے اور جوشخص دنیاوی اسباب پر بھروسہ کرے گا حق تعالیٰ اس کو دنیاکے ساتھ چھوڑ دے گا۔(مرجع سابق)حضورﷺکا توریت میں نام متوکل تھا(مکاشفتہ القلوب ، ص 213 ) اور کیوں نہ ہوتاکہ آپ ﷺسے بڑھ کر معرفت خداوندی کا شناسا اور کون ہے؟آپ ﷺموحدین کے سرداراور عارفین کاملین کے رہنما ہیں،توکل کی حقیقت آپ پر روزروشن کی طرح عیاں تھی۔
حضرت داود علیہ السلام پر رب کی وحی نازل ہوئی کہ ائے داود!جب کوئی بندہ سب کچھ چھوڑ کرمیری پناہ لے گا،اگر چہ زمین وآسمان کی خلقت مکروفریب سے اس پر حملہ کرے میں اس کی مشکل کو آسان کردوںگا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اپنا خلیل کیا، ملک الموت اللہ تعالیٰ سے اِذن لے کر آپ کو یہ بشارت سنانے آئے، آپ نے بشارت سن کر اللہ کی حمد کی اور ملک الموت سے فرمایا کہ اس خُلّت کی علامت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا :اللہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول فرمائے اور آ پ کے سوال پر مردے زندہ کرے، تب آپ نے ایک دعا کی،ترجمہ:” اے رب میرے مجھے دکھا دے تو کیونکرمردے جلائے گا، فرما یا کیا تجھے یقین نہیں(اللہ تعالیٰ عالم غیب و شہادت ہے، اس کو حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے کمال ایمان و یقین کا علم ہے، باوجود اس کے یہ سوال فرمانا کہ کیا تجھے یقین نہیں ا س لیے ہے کہ سامعین کو سوال کامقصد معلوم ہوجائے اور وہ جان لیں کہ یہ سوال کسی شک و شبہ کی بناءپر نہ تھا)عرض کی یقین کیوں نہیں مگر یہ چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار آجائے (اور انتظار کی بے چینی رفع ہو، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا معنی یہ ہیں کہ اس علامت سے میرے دل کو تسکین ہوجائے کہ تو نے مجھے اپنا خلیل بنایا) فرمایا تو اچھا چار پرندے لے کر اپنے ساتھ ہلالے (تاکہ اچھی طرح شناخت ہو جائے) پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دے پھر انہیں بُلا ،وہ تیرے پاس چلے آئیں گے پاوں سے دوڑتے (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چار پرند لیے مور، مرغ،کبوتر،کوّا۔انہیں بحکمِ الٰہی ذبح کیا، ان کے پَر اُکھاڑے اور قیمہ کرکے ان کے اجزاءباہم خلط کردیے اور اس مجموعہ کے کئی حصہ کیے، ایک ایک حصہ ایک ایک پہاڑ پر رکھا اور سَر سب کے اپنے پاس محفوظ رکھے، پھر فرمایا چلے آو حکم الٰہی سے ،یہ فرماتے ہی وہ اجزاءاُڑے اور ہر ہر جانور کے اجزاءعلاحدہ علاحدہ ہو کر اپنی ترتیب سے جمع ہوئے اور پرندوں کی شکلیں بن کر اپنے پاوں سے دوڑتے حاضر ہوئے اور اپنے اپنے سروں سے مل کر بعینہ پہلے کی طرح مکمل ہو کر اڑ گئے۔ سبحان اللہ) اور جان رکھ کہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔(سورہ بقرہ،پ3،آیت260) حضرت ابراہیم علیہ السلام کاایمان اور یقین کامل تھا،دل کے قرار کے لیے بارگاہ صمدیت میں مذکورہ سوال قائم کیااوررب پرتوکل کے سبب اللہ پاک نے آپ کے سوال کا حکمت بھراجواب بھی عنایت فرمایا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کوجب منجنیق کے ذریعے آگ میں ڈالاجانے لگاتب جنوں اور انسانوں کے علاوہ زمین وآسمان کی ساری مخلوق چیخ اٹھی اور اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرنے لگی کہ اے مولائے کائنات!زمین میں سوائے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کوئی اور نہیں جو تیری عبادت کرے،اے اللہ! آج وہ تیرانام لینے کے سبب جلایاجارہاہے۔ہمیں اجازت عطافرماکہ ہم تیرے نبی کی امدادکریں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہواﺅں اور پانی کے فرشتوں سے ارشاد فرمایا:”میرااللہ مجھے کافی اور وہی بہترکارسازہے۔“آپ کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور عرض کیاکہ آپ کو میری امداد کی ضرورت ہوتومیں آپ کی امدادکروںآپ نے فرمایا:مجھے تمہاری امداد کی ضرورت نہیں،تب آپ سے سیدالملائکہ نے کہاکہ تو پھر آپ اپنے رب سے ہی سوال کرو،آپ نے فر مایا:”وہ میرے حال کو جانتاہے سوال کے بغیر ہی مجھے کافی ہے۔“سبحان اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ پر کتنا توکل ہے؟آگ میں ڈالے جارہے ہیں باوجود اس کہ اللہ رب العزت پر کامل یقین واعتماد ہے کہ جس رب کی خاطر آگ میں ڈالاجارہاہوں وہی رب میری محافظت فرمانے والاہے اوراس توکل کاآپ کو انعام یہ ملاکہ اللہ پاک نے نارِ نمرود کو آپ پرگل وگلزار کردیااور آپ ہی کی شکل کا ایک فرشتہ آپ کے پاس بھیج دیاتاکہ آپ اس سے اُنس حاصل کریں۔آپ اس آگ میں چالیس یا پچاس دن رہے ،خود فرماتے ہیں: ”آگ میں رہنے کے دنوں میں میں جتناخوش رہااور اتناپوری زندگی مجھے عیش حاصل نہ ہوسکا۔“(تذکرة الانبیا،ص100)
اللہ تعالیٰ نے پھرآپ کا امتحان لیااور آپ کو حکم دیاکہ اپنی زوجہ ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل کو حرم کی سرزمین میں چھوڑ آﺅ،اس وقت وہاں کوئی شہر اور آبادی نہیں تھی بلکہ صرف جنگل تھا،حکم خداوندی پر آپ نے عمل کیا،اس توکل کی یہ برکت کہ اس جگہ ”شہر مکہ“آباد ہوااور آپ ہی کے ہاتھوں اللہ کے گھر”کعبة اللہ“ کی تعمیر ہوئی اور زمزم کا چشمہ جاری ہواجو آج تک عالم اسلام کو سیراب کررہاہے،دلوں کی مرادوں کو پوری کررہاہے اور گوناگوں بیماریوں سے شفاعطافرمارہاہے۔پھر آپ کو اپنے بیٹے کی قربانی کا حکم ہوا،وہ بیٹاجسے آپ بہت چاہتے تھے اور جو بارگاہ صمدیت کی دعاکا ثمرہ تھا،آپ نے اللہ کی بارگاہ میں دعاکی تھی ،ترجمہ:”الٰہی مجھے لائق اولاد دے،تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایک عقل مند لڑکے کی“(سورہ الصٰٓفّٰت،پ23،آیت 100۔101) حکم خداوندی پر آپ نے عمل کیااور منٰی میںاپنے پیارے بیٹے کے گلے پر چھُری پھیر دی،توکل کی یہ برکت کہ چھری نہ چلی اور رب نے فرمایا:”اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم بیشک تو نے خواب سچ کردکھا یا، ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو،بیشک یہ روشن جانچ تھی اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے کر اسے بچالیا اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی، سلام ہو ابراہیم پر ،ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو ،بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہے ۔“(سورہ الصٰٓفّٰت)توکل کی برکت پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک موٹاتازہ سینگوں والاسفید سیاہی مائل دنبہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ دے دیاگیااور آپ کو ذبح سے بچاکر بھی ذبح ہوجانے کااجروثواب عطاکیااور تاقیامت آپ کو ”ذبیح اللہ“(اللہ کے لیے ذبح ہونے والے)کے لقب سے متصف کیاگیا۔جب حضرت جبریل علیہ السلام جنت سے فدیہ لے کر آئے تو خیال کیاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کہیں جلدی نہ کردیں تو آپ نے پڑھا”اللہ اکبراللہ اکبر“۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب آسمانوں کی طرف دیکھ کر پڑھا”لاالہ الااللہ واللہ اکبر“اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے یہ سناتو پڑھا”اللہ اکبروللہ الحمد“۔ان تینوں حضرات کے مجموعی کلام کو ”تکبیرات تشریق“کی صورت میں تاقیامت نمازیوں پر ذی الحجہ کی نوتاریخ کی نمازفجر سے لے کر تیرہ تاریخ کی نمازعصر تک واجب کردیاگیاتاکہ یہ یادگار قائم رہے۔مگر افسوس! آج سنت ابراہیمی تو اداکی جارہی ہے مگر حضرت خلیل جیساتوکل مفقود نظرآتاہے۔اسی لیے راہِ خدا میں پیش کی جانے والی انگنت قربانیوں ،حاجیوں کی کثرت اور فرائض وواجبات کی ادائیگی کے باوجود مسلمان نت نئی مصیبتوں کا شکار ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تعلیمات پر نہ صرف عمل کریں بلکہ دل کی ستھرائی کی کوشش بھی کریں۔ اسی لیے شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے جواب شکوہ میں کہاتھا
آج بھی ہو جو ابراہیم کا سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
..:: FOLLOW US ON ::..
![]() |
![]() |
![]() |
No comments:
Post a Comment